چراغ بالی سچی کہانی

چراغ بالی
چراغ بالی 1928ء میں ضلع سرگودھا لہ تحصیل خوشاب (اب ضلع)کے تاریخی قصبہ ہڈالی کے ایک متوسط خاندان میں محمد حیات بالی کے گھر میں پیداہوئے اس خاندان کاآبائی پیشہ کاشت کار ی ہے اس خاندان کے افرادقدآورخوبصورت کڑیل اوربہادرجوان ہیں۔چراغ کی والدہ کاتعلق اعوان فیملی سے تھادراصل بالی قوم بھی اعوان فیملی کی ایک ذیلی شاخ ہے چراغ کے علاوہ اس کے چاربھائی اورپانچ بہنیں تھیں چراغ کے بھائیوں میں سے اب صرف ایک بھائی حاجی میں محمدزندہ ہے چراغ بالی بچپن سے ہی خودسراورضدی طبیعت کا مالک تھالیکن ذہین بھی تھااس کا اکثرہم عمر لڑکوں سے لڑائی جھگڑاہوتاسکول سے بھی اکثر شکایتیں گھر والوں کو آتی رہتیں۔چراغ بالی نے مڈل تک تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی اسی دوران اس نے قرآن پاک بھی پڑھ لیا۔جب چراغ بالی لڑکپن کی حدودپھلانگ چکا تو اس کی شکائتوں ِش نظر اس کاوالد محمد حیات نے اسے فوج میں لے گیاچونکہ چراغ کے والد اوراس کا بڑابھائی میاں کے پی محمدفوج میں تھے جو اس وقت وائسرائے ہندکے باڈی گارڈدستہ میں شامل اورکلکتہ میں تعنیات تھے۔یہ تقسیم ہندسے قبل فرنگی کے دورِ حکومت کا زمانہ تھااورفرنگی ایسے مضبوط کڑیل اوربہادر جوانوں کی قدرکرتی اوران کوجلدفوج میں بھرتی کر لیاجاتا۔یوں چراغ بالی اپنے والد اوربھائی کے ساتھ وائسرائے ہند کے باڈی گارڈ دستے میں شامل ہوگیااسی دوران گاؤں میں اپنی برادری کے مددخان بالی جو کہ محمدحیات کارشتہ دارتھاجن سے حیات وغیرہ کی رنجش چلی آرہی تھی شدت اختیارکرگئی۔اورمددخان کے بیٹوں نے چراغ کی غیرموجودگی میں کل پرزے نکالنے شروع کردئیے کیوں کہ چراغ کے گھر میں ہوئے یہ لوگ اس کے ڈرتے اورسہمے رہتے چونکہ چراغ لڑائی جھگڑوں کاعادی نوجوان تھااوراب اس کے فوج میں چلے جانے کے بعدان کا راستہ صاف ہوگیااوروہ اتنے منہ زورہوگئے کہ انھوں نے مخالفین کے علاوہ شریف لوگوں کو بھی تنگ کرناشروع کردیاایسے موقعوں پر دوگھرانوں میں رنجش یا مخالفت ہوجائے تو کچھ لوگ محض تماش بینی اورشرارت کے طورپر دونوں خاندانوں میں مزید نفرت کے بیج بوناشروع کردیتے ہیں ایسے ہی حالات میں حیات بالی اورمددبالی کے گھرانوں کے درمیاں لگائی بجھائی والوں نے خوب زہرگھولناشروع کردیااورنوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دونوں خاندانوں میں دشمنی کی ایسی ابتداء ہوئی کہ ابھی تک چلی آرہی ہے اوردرجنوں افراد اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔دراصل کسی بھی دشمنی کی ابتداء میں زن اورزمین کا بنیادی عمل دخل ہوتا ہے اسی طرح چراغ کی دشمنی کی ابتداء کا سب سے بڑاسبب بھی غیرت بنی۔ ایک سال قبل چراغ کے بڑے بھائی کی بیوی مدد خان کے ایک بیٹے نے ہوایوں کہ قیام پاکستان سے تقریباً زبردستی اغواء کر لی اوراسے علاقہ غیرمیں لے جاکرغائب کردیااس کے علاقہ غیر کے پٹھانوں سے تعلق اوردوستی تھی اس وقت چراغ بالی کلکتہ میں تھاجب چراغ کو اس بات کا علم ہواتو وہ غضب ناک ہوکر عزت کا بدلہ لینے کے لیے فوج سے بھاگ آیااس زمانے میں لڑائی جھگڑوں میں لاٹھی کلھاڑی اورچھری بالے وغیرہ کا استعمال ہوتا تھاکیوں کہ اس وقت رائفل بندوق عام نہیں تھی چراغ بالی اورمخالف گروپ میں دشمنی کا آغازتقسیمِہند سے قبل 1946ء میں اس وقت ہواجب دونوں گروپوں کے درمیان محلہ بالیانوالہ ہڈالی میں پہلی بارتصادم ہوادونوں گروپوں میں دوبدوزبردست لڑائی ہوئی مدد بالی گروپ کے سربراہ مددخان صادق اورمحمد بالی تین افراد قتل ہوئے جب کے احمد خان شدیدزخمی ہوااوراسی تنازعہ کامرکرزی کردارسرفرازبچ نکلا۔اس لڑائی کے بعدچراغ بالی کا حوصلہ بڑھااوراس نے مددبالی کے حمائتی ہمدرداوران کی معاونت کرنے والے اوراپنے مخالفوں سے انتقام لینے کی منصوبہ بندی کی اورجرم کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا۔جب آدمی دریامیں چھلانگ لگا دے تو پھر چھینٹوں سے کیا ڈرکے مصداق اب چراغ بالی جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اورپھر اس دلدل میں ایساپھنساکہ اب وہ اس سے باہر نہیں نکل سکتا تھا وہ باقاعدہ منصوبہ بندی اورپلان کے ذریعے دشمنوں کو قتل اورڈاکہ زنی کی وارداتیں کرنے لگا۔متعددوارداتوں کے کچھ عرصہ بعدکچھ عرصہ کے لیے جیل چلا گیااورپھرضمانت پر رہاہوگیا۔اس عرصہ میں چراغ کی اپنی برادری میں پہلی شادی ہوئی لیکن بوجہ جرائم چراغ اسے اپنے ساتھ نہ رکھ سکااوروہ عورت ہمیشہ اپنے میکے میں ہی رہی۔ضمانت پر رہاہونے کے بعدچراغ نے پھرسنگین جرائم کا ارتکاب شروع کر دیا۔اب وہ مکمل طورپر ایک خطرناک مجرم کاروپ دھارچکاتھااوراس کانام نہ صرف ضلع سرگودہابلکہ پنجاب بھرمیں خوف ودہشت کی علامت بن گیا۔ سنگین وارداتیں لوٹ مارقتل و غارت کی اوراس طرح کے دیگر جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے 1956ء میں پولیس نے اس کی ہسٹری شیٹ کھول کر اسے انتہائی خطرناک اشتہاری قراردے دیا۔1956ء سے 1962ء تک چراغ کے عروج کا پہلادورتھااس عرصہ میں چراغ نے مددبالی گروپ کے قتل ہونے والے اس کے ایک بیٹے اغواکرکے اس سے باقاعدہ نکاح کر لیا۔یہ چراغ کی دوسری شادی تھی اس عورت کو چراغ کی بیوہ کوانتقاماً نے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھااورعورت نے بھی تمام عمر چراغ سے وفاداری کاحق اداکردیااس عورت سے چراغ بالی کاایک بیٹابھی پیداہواجس کی بعد میں نواب اکبربگٹی نے اپنے بیٹوں کی طرح پرورش کی۔1962ء تک پولیس اورچراغ کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی اس کے باوجودچراغ کی وارداتوں میں فرق نہ آیااورچراغ کے خلاف ضلع سرگودھاکے مختلف تھانوں میں سنگین جرائم کے لاتعدادمقدمات درج ہوئے جن میں قتل اغوااورڈکیتی کے درجنوں کیس شامل تھے لیکن پولیس اپنی تمام ترکوششوں کے چراغ کو گرفتارنہ کرسکی۔اورجب تمام تروسائل کے بوجودپولیس اسے گرفتارکرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو اس کی گرفتاری پردومربع زرعی اراضی اوردوہزارروپے نقدانعام مقررکردیا۔اس میں زمانے دوہزارروپیہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔غرض چراغ پولیس کے لیے چھلاوہ بن گیا ۔دراصل ایک تو چراغ کاا پنا مخبری کا نظام پولیس کے مخبری نظام سے بہت بڑااورمنتظم تھا اوردوسرے پولیس جرائم پیشہ لوگوں سے تو خوفزدہ اورچورڈاکوؤں کے آگے بھیڑ بکری بنی رہتی ہے جب کہ شریف شہریوں اورپر امن لوگوں کے لیے شیر بن جاتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وادی سون میں ایک ڈاکو ملک محمد خان آف ڈھرنال کا راج تھا اورمغربی پاکستان میں ملک امیرمحمدخان نواب آف کالاباغ گورنر تھے ان دنوں اس علاقہ میں دوضرب المثل بڑی مشہورتھیں اورابھی بھی بعض موقعوں پر دی جاتی ہیں کہ اگر کسی کارعب ودبدبہ اورٹھاٹھ باٹھ شان وشوکت کا اظہارکرناہوتو لوگ کہتے ہیں وہ تو نواب آف باغ ہے۔اس طرح دوسری ضرب المثل تھی تو کوئی چراغ بالی ایں۔اب چراغ بالی ایک خطرناک ڈاکوکے روپ میں علاقہ پر راج کررہاتھالیکن دوسری طرف اس کا ایک کرداریہ بھی تھا کہ وہ غریبوں اورمظلوموں کاہمدردغمگساراورمددگاربھی تھااورعلاقہ کے جو غریب اورمظلوم لوگ زیادتی کا شکارہوتے وہ پولیس یا تھانے جانے کی بجائے چراغ سے مدد مانگتے اورچراغ ان کی دادرسی کرتاانھیں ان کا حق دلواتا۔بڑے لوگوں کولوٹتااورغریبوں کو تقسیم کرتا۔چراغ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس نے کبھی کسی غریب شریف یاعام آدمی کوتنگ نہیں کیااورنہ ہی کبھی کسی کی عزت پہ ہاتھ ڈالابلکہ وہ عزت وغیرت کا رکھوالا تھااورخواتین کابے حداحترام کرتااوردشمنوں کا دشمن اوردوستوں کا دوست تھا۔چراغ بالی نمازروزے کا بھی پابند تھا ہر وقت اپنے ساتھ قرآن مجیدرکھتااس کی تلاوت کرتاشایدیہی وجہ تھی کہ لوگ سمجھتے تھے کہ چراغ کے پاس کوئی ایساتعویذ ہے جس کی وجہ سے اس پر گولی اثرنہیں کرتی حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی اورچراغ کے پاس ایساکوئی تعویذوغیرہ نہ تھا۔علاقہ کے بعض بڑے اوربااثرلوگوں سے چراغ کے مراسم اوردوستیاں تھیں جو اس کی پشت پناہی کرتے جن میں ہڈالی کے ہی ایک نواب زادہ جو پولیس کے بہت بڑے افسرتھے بعدمیں بھٹوکے دورِحکومت میں ایف ایس ایف کے بانی ڈائریکٹر جنرل بنے جیسے لوگ بھی شامل تھے اوربڑے لوگ ایسے مفروراشتہاریوں اورڈاکوؤں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔نواب آف کالاباغ اورنوابزادہ ٹوانہ کی آپس جو پولیس کے بڑے دبنگ قسم کے آفیسر تھے اپنے میانوالی میں تعیناتی کے دوران نواب آف کالاباغ کو دس میں پرانی مخالفت چلی آرہی تھی جس کی وجہ تھی کہ اس زمانہ میں نواب آف ٹوانہ کے ایک بڑے بھائی نمبریوں میں شمار کرچکے تھے جس کی وجہ سے نواب آف کالا باغ کی ان لوگوں سے بنتی نہیں تھی اب ایک طرف وادی سون کے ڈاکو محمد خان آف ڈھرنال سے نواب آف کالاباغ کی دوستی تھی تو دوسری جانب چراغ بالی سے نوابزادہ ٹوانہ کے مراسم تھے اوردونوں وڈیرے نواب آف کالاباغ، محمدخان کو نوابزادہ ٹوانہ کے خلاف استعمال کرناچاہتاتھاجب کہ نوابزادہ ٹوانہ چراغ بالی کو نواب آف کالاباغ کے خلاف استعمال کرناچاہتا تھالیکن چراغ بالی اورمحمد خان ڈھرنالیہ دونوں وڈیروں کے عزائم کو بھانپ گئے اورانھوں نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے سے انکارکردیااس سے نوابزادہ ٹوانہ اور چراغ بالی میں رنجش پیداہوگئی اورنوابزادہ ٹوانہ چراغ بالی کی گرفتاری میں دلچسپی لینے لگاادھرچراغ کی کاروائیاں حکومت کے لیے پریشانی کاباعث بننے لگیں تو چراغ کی گرفتاری کے لیے حکومتی سطح پر بڑی منظم سکیم بنائی گئی۔ 1962ء میں شاہ پور کے میلہ کے موقع پر چراغ کو دھوکہ سے گرفتارکرلیاگیا۔چراغ بالی اپنی پہلی مفروری کے بعدگرفتارہوگیا۔گرفتاری کے بعدچراغ کو مختلف مقدمات میں مجموعی طورپر قیدبامشقت اور48000روپے جرمانہ اورضبطی جائیدادکی سزاہوئی 1962ء سے 1972ء تک 10سال وہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں رہاکیوں کہ چراغ خطرناک مجرم تھااس لیے اسے زیادہ عرصہ ایک جیل میں نہیں رہنے دیا جاتاوہ کبھی مچھ جیل اورکبھی میانوالی جیل اورکبھی سرگودھاساہیوال کی جیلوں کے چکرکاٹتارہا۔میانوالی جیل،مچھ جیل اورساہیوال جیلوں میں خطرناک مجرموں کورکھاجاتاہے۔جن سے حکومت بھی لرزاں ہوتی ہے اوراکثرسیاسی قیدی بھی اس کوٹھری کے مہمان بنتے ہیں میانوالی جیل کی اس تاریخی کوٹھری میں سیدعطااللہ شاہ بخاری ،مولاناعبدالستارنیازی ،مولاناسیدمودودی ،سردارعبدالقیوم خان،رسول بخش تالپور،غلام حیدروائیں،احمد علی قصوری، نواب اکبر بگٹی،نواب غوث بخش،مجیب الرحمن ،ذوالفقار علی بھٹوجیسی نامورشخصیات ایام اسیری گزارچکی ہیں۔میانوالی ہی میں چراغ بالی کی نواب اکبر بگٹی سے سے ملاقات ہوئی جوبعدازاں دوستی کی شاندارمثال میں تبدیل ہوگئی۔چراغ بالی کے جیل سے دوبارہ فرارہونے کے بعد نواب اکبربگٹی نے ہی چراغ کو اپنے ہاں پناہ دی اوراس کی بیوی اوربیٹے کو اپنے گھر میں بیٹوں کی طرح رکھااورچراغ کے بیٹے کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی جواب ایک کامیاب انسان اوربزنس مین ہے۔ چراغ کی قیدکے دوران1965ء میں جب پاکستان اوربھارت کی جنگ چھڑی تو چراغ نے اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت رضاکارانہ طورپر محاذِجنگ پر جانے کے لیے حکومت سے اجازت مانگی لیکن حکومت نے اسے اجازت نہ دی اسی قید کے دوران چراغ نے پشتو بھی سیکھ لی تھی اسی تمام عرصہ میں چراغ جس جیل میں بھی جاتا وہاں کابے تاج بادشاہ بن جاتاجیل میں صرف چراغ کا راج ہوتااوراسی کا حکم چلتاجیل کاعملہ کے ذریعے اپنے علاقہ کے دوسرے لوگوں سے رابطے میں رہتااوروہ جیل ہی سے پیغام بھجواتا اورمتعلقہ شخص کاکام ہوجاتا،اسی دورمیں پاکستان کی ایک پرانی فلم بغاوت بنی جس کی شوٹنگ وادی سون کے علاقوں جبی ڈھوکڑی وغیرہ میں ہوئی یہ علاقے ہڈالی شہر کے ساتھ ملتے ہیں اس فلم کی شوٹنگ کے دوران فلم والوں کو گھوڑوں کی ضرورت پڑی تو انھوں نے چراغ کے بھائی گلزارسے رابطہ کیا گلزار نے یہ بات چراغ کو بتائی تو چراغ نے اپنی سفید گھوڑی اداکاراکمل اورہیرو سدھیر کو تحفہ میں پیش کردی اوریہ گھوڑی بعدمیں بھی بہت عرصہ دوسری فلموں میں بھی کام کرتی رہی۔ اگست1971ء میں جب چراغ کا بھائی قتل ہواتو چراغ نے اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لیے جیل سے فرار ہونے کا منصوبہ بنایااورفرار ہوگیا۔اس کے جیل سے فرارہوتے ہی پنجاب میں ہل چل مچ گئی اورپھر چراغ کے دشمنوں ُڑ گئیں۔اس نے پھر اپنے دشمنوں کو چن چن کر قتل کرناشروع کر دیا۔وہ اکثر اورمخالفین کی نیندیں ا سوموارکے دن قتل کرتااورجب بھی سوموار کادن آتا تو ہڈالی کے لوگ دعائیں مانگتے کہ اللہ کرے یہ دن خیریت سے گزرجائے۔چراغ آتاکاروائی کرتااورپھرروپوش ہوجاتااس عرصہ میں یوں بھی ہواکہ کچھ جرائم پیشہ لوگ چراغ کے نام پر ڈاکے ڈالنے لگے۔ایک دفعہ ایسے ہی کچھ لوگون نے ایک گھر میں ڈاکہ ڈالاتواس کے سرغنہ نے کہا میں چراغ بالی ہوں تو لٹنے والے سہم گئے وہ چراغ کو پہچانتے نہ تھے۔اورنہ ہی ان میں سے پہلے اسی کسی نے چراغ کو دیکھا ہواتھا۔انھوں نے چراغ کا نام سن رکھا تھا۔ڈاکو لوٹ مارکرکے جارہے تھے کہ اتفاقاً دوران چراغ کا بھی اسی جگہ سے گزرہواجہاں لوگ اکٹھے تھے اورچراغ کو برابھلا کہہ رہے تھے۔چراغ نے جب لوگوں سے اس کی وجہ معلوم کی تو اسے بتایاگیا کہ ظالم ڈاکوچراغ بالی غریب لوگوں کو لوٹ کرجارہاہے۔ جب چراغ کو پتہ چلا کہ میرے نام پر لوگ وارداتیں کررہے ہیں تو اسے بہت غصہ ہوااوراس نے اسی وقت واردات کرنے والوں کا پیچھاکیااورانھیں راستے میں پکڑکر لٹنے والوں کے پاس واپس لایااورلٹنے والوں کا ساراسامان واپس کرایااوران لوگوں کو بتایاکہ میں چراغ بالی ہوں یہ لوگ میرے نام پر ڈاکہ ڈالتے ہیں حالانکہ میں کبھی بھی کسی غریب کو نہ تو لوٹاہے اورنہ ہی کسی مظلوم سے زیادتی کی ہے بلکہ میں توایسے لوگوں کی مددکرتاہوں ۔یہ کہہ کر چراغ نے ان چوروں کی ان لوگوں کے سامنے خوب مارااوران کے کان پکڑوائے ناک سے لکیریں کھچوائیں اوران سے آیندہ نہ کرنے کا وعدہ لے کرچھوڑ دیا۔چراغ مفرورتھااورپولیس اس کے تعاقب میں لیکن چراغ پولیس کو دھوکہ دے کر نکل جاتا۔چراغ اورپولیس کے درمیان اکثرآنکھ مچولی کا کھیل جاری رہتالیکن وہ ہر باربھاگ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا۔جولائی1972ء میں چراغ اپنے ایک حریف خادم حسین بالی کی تلاش میں ہڈالی شہر میں آیا تو خادم حسین کو بھی چراغ کی آمدکابروقت پتہ چل گیالیکن خادم حسین کے ساتھ صرف دوآدمی تھے جب کہ چراغ کے ساتھ درجنوں آدمی تھے اب خادم حسین شہر میں آگے آگے اورچراغ ان کے پیچھے تھا۔آخر جب چراغ خادم حسین کے سرپر آپہنچاتو خادم حسین ا دوساتھیوں سمیت ایک مسجد جو کہ پرانالاری اڈاکے سامنے ہے اس مسجد میں پناہ لے لی لیکن اس کے باوجودبھی چراغ نے خادم حسین کو مارنے کے لیے مسجد کو گھیرے میں لے کر مسجد پر فائرنگ شروع کر دی اندرسے خادم حسین نے بھی اکادکا فائر کیے کئی گھنٹون یہ مقابلہ جاری رہاجس کی وجہ سے سرگودھا میانوالی روڈ بھی بند ہوگئے۔باوجو کوشش کے نہ چراغ مسجد میں داخل ہوسکااورنہ ہی خادم حسین مسجد سے باہر نکلا۔بالآخرچراغ نے خادم حسین کو مسجد میں پناہ لینے کے باوجودمسجد کو آگ لگادی جس سے مسجد کو کچھ حصہ بھی متاثر ہوالیکن مجموعی طورپر نہ تو خادم حسین کو نقصان پہنچااورنہ ہی مسجد کو نقصان ہواحالانکہ شہر ک ے لوگوں نے برستی گولیوں کے موقع پر جاکرچراغ کو ایسا کرنے سے منع کیالیکن اس نے ان کی بات نہ مانی اورضدمیآکرخادم حسین کو مارنے کے لیے مسجد کی بے حرمتی کرڈالی۔لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے چراغ کی ٹانگ میں گولی لگ گئی جس سے چراغ زخمی ہوگیا۔زخمی ہوگیا۔زخمی ہونے کے بعد جب چراغ کو ناکامی نظرآئی تو وہاں سے ساتھیوں سمیت بھاگ نکلا۔مسجد کی بے حرمتی کے بعدچراغ کو کہیں سکون نہ ملا اس واقعہ کے ایک ماہ بعدچراغ بالی نے خادم حسین کودھوکے سے پولیس کے بھیس میں اپنے بندے بھیج کر بلوایااورقتل کر دیاانہی دنوں گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے سرگودہاکادورہ کیاتو سرگودہاکے اشتہاری فتح محمد جو کہ ایک عورت کے قتل کے علاوہ کئی قتلوں میں ملوث تھااورچراغ بالی کا ساتھی تھاکی شکایت مقتولہ کے لواحقین نے گورنر پنجاب سے کی اورمطالبہ کیاکہ فتح محمد کے علاوہ چراغ بالی کو بھی گرفتارکیاجائے۔گورنرپنجاب نے لوگوں کی شکایت پرڈی ایس پی سیدباقر شاہ کو چراغ اوراس کے ساتھیوں کی زندہ یا مردہ گرفتاری کی خصوصی ہدایت کی اورحکومت پنجاب کے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی اور حکومت کی جانب سے چراغ کی گرفتاری پر دومربع زرعی اراضی اور25000روپے کا نقدانعام بھی رکھ دیا۔ڈی ایس پی باقر شاہ نے اپنی بااعتمادپولیس ٹیم کے ساتھ چراغ بالی کی گرفتاری کی منصوبہ بندی کی اورحکومت سے خصوصی اختیارات مانگے۔اجازت ملنے پر باقر شاہ نے چراغ کے گردبڑے منظم طریقے سے گھیراتنگ کرناشروع کر دیااوراس کی گرفتاری کے لیے مختلف چھاپہ مار پارٹیاں تشکیل دیں۔نومبر1972ء میں ایک پر اعتماد نوجوان پولیس آفیسر اے ایس آئی محمدر فیق بٹ کی سرکردگی میں پولیس کی ایک چھاپہ مارٹیم نے چراغ بالی کے ڈیرہ پر ریڈ کیا۔چراغ اس وقت ڈیرے پہ اکیلا تھا۔اوراسے پولیس کی آمد کو پتہ چل گیااس نے اکیلے ہی پولیس کا مقابلہ شروع کر دیا۔دونوں طرف فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔چونکہ چراغ بالی کے پاس جدید اسلحہ کا اچھا خاصاذخیرہ تھاوہ مورچہ بند ہوکر فائرنگ کرتارہا۔تقریباًچھ گھنٹے مقابلہ جاری رہنے کے بعدشام کو پولیس کو ناکامی کاسامناکرناپڑاحکومت کے حکم پر چراغ کو زندہ یا مردہ گرفتارکرنے والے کے آگے پولیس بے بس اوربھیگی بلی بن گئی۔شام ڈھلنے لگی تو چراغ بالی اپنے مورچہ سے نکل کر نزدیکی کمادمیں چھپ گیااس نے پولیس کی وارننگ کی پرواہ نہ کی اورگرفتاری دینے سے انکارکردیا۔اے ایس آئی محمد رفیق بٹ نے جب چراغ کے پیچھے کماد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو چراغ نے برسٹ مارکر رفیق بٹ کو ہلاک کر دیا۔رفیق بٹ کے مرتے ہی پولیس کی نفری کا حوصلہ ٹوٹ گیااوروہ منتشر ہوگئی اورچراغ موقع سے فرارہوگیا۔چراغ کے ہاتھوں پولیس افسر کی ہلاکت پولیس کے بدنامی اورحکومت کی ناکامی کا ِش نظر پولیس اورزیادہ سرگرم ہوگئی ڈی ایس پہ باقرشاہ نے چراغ کی باعث بننے لگی حکومتی دباؤکے پی گرفتاری کے لیے نہ صرف پنجاب بلکہ صوبہ سرحداوربلوچستان کی پولیس سے بھی مددمانگ لی۔مارچ1973ء وہاں سے چراغ فرارہوگیا۔اسلحہ کاایک بہت بڑاڈپو پولیس کے ہاتھ لگا جس میں جدید ترین اسلحہ اورپولیس میں پولیس کے مخبر کی اچلاع پر چراغ کی گرفتاری کے لیے جب اس کی کمین گاہ کے نزدیک چھاپہ ماراتو کی وردیاں شامل تھیں۔اس تمام عرصہ میں چراغ کبھی سرحدتو کبھی بلوچستان تو کبھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں پھرتارہا۔کبھی کبھاروہ افغانستان بھی چلاجاتااوراچانک علاقہ میں واپس آتا تھرتھلی مچاکراورایک دوقتل کرکے پھر غائب ہوجاتا۔مئی1973ء میں چراغ کے ساتھی اورمشہوراشتہاری فتح محمد ِن تفتیش فتح محمد نے بہت سے انکشافات کیے۔اورپولیس کو چراغ بالی کے سرگودہاسے گرفتارکر لیا گیا۔دورا خفیہ ٹھکانوں کے متعلق بھی بتا دیا۔جون 1973ء میں جب چراغ اپنی بہن کے ساتھ جوکہ ہروقت اس کے ساتھ رہتی تھی پشاور سے افغانستان فرارہونے والا تھاپشاورپولیس نے ڈرامائی طورپر اسے گرفتارکرلیا۔اوراس پنجاب پولیس کو ہوئی ۔جہاں پشاورپولیس نے چراغ بالی کو باقرشاہ کے حوالے کردیااورسخت ً کی اطلاع فورا ترین سکیورٹی میں سرگودہاپولیس چراغ بالی کو لے کر پشاورسے سرگودہاکے لیے روانہ ہوئی ساتھ ہی چراغ بالی کی گرفتاری کی اطلاع گورنر پنجاب کو بھی دے دی گئی۔چراغ بالی کی گرفتاری کے بعدکئی پردہ اس خبر کو بھی پڑھیں: ایک پیر اور نواب کی سیاسی چشمک کے شکار نوجوان کی داستا Previous سانحہ آرمی پبلک سکول کی یاد میں تقریبات کا آغاز ِش نظر اسے جعلی پولیس مقابلے میں پارکرنے کافیصلہ کیا نشینوں کے نام منظر عام پرآنے کے خدشہ کے پی گیا۔ڈی ایس پی باقرشاہ نے کٹھہ کی پہاڑیوں جب کہ چراغ بالی کو ہتھکڑی اوربیڑیاں لگی ہوئی تھیں گولی مارکر ہلاک کردیا۔اوراس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال خوشاب پہنچادی جب چراغ بالی کی لاش ہسپتال پہنچی تو ضلع بھر سے لوگوں کو جم غفیر چراغ بالی کوایک نظر دیکھنے کے لیے امڈ آیا۔یوں پچیس سال تک جرائم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ اورپنجاب بھرمیں خوف ودہشت کی علامت تقریباً 
اورمجموعی طورپر35سے زائد افرادکے قاتل چراغ بالی کادورختم ہوگیا۔