DISTRICT KHUSHAB


سرکاری ریکارڈ کے مطابق خوشاب کو 1853ء میں ٹاؤن کمیٹی، 1876ء میں میونسپل کمیٹی اور 1982ء میں ضلعے کا درجہ دیا گی

 خوشاب دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر آباد صوبہ پنجاب کا ایک تاریخی قدیمی قطعہ ارض ہے۔ سرزمین خوشاب دریا، سرسبز میدان، کوہسار اورصحرا سے مزین ہے۔ صدیوں پرانے تاریخی شہر خوشاب کی تاریخ موہنجوڈرو اور ہڑپہ سے بھی پرانی ہے۔ خوشاب فارسی کے دو الفاظ ’’خوش‘‘ اور ’’ آب‘‘ کا مجمو عہ ہے جس کے معنی ’’میٹھا پانی‘‘ ہیں۔ سینہ بہ سینہ چلتی روایات کے مطابق یہاں سینکڑوں حملہ آور اور کئی بادشاہ وارد ہوئے اور جس نے بھی یہاں کا پانی پیا اس کے شیریں پن کی تعریف کی۔ یہ روایات امیر تیمور، محمود غزنوی، بابر اور شیر شاہ سوری کے ساتھ بالخصوص منسوب ہیں۔ تاہم شیر شاہ سوری کے حوالے سے منسوب روایت کافی مستند اور مضبو ط سمجھی جاتی ہے کہ جب اس مشہور مسلم فاتح کا اس علاقہ سے گزر ہوا اور پڑاؤ کے دوران جب اس نے دریا ئے جہلم کا پانی پیا تو بے اختیارکہہ اٹھا ۔۔۔’ خوش آب‘‘ ۔۔۔۔ اوریوں یہ الفا ظ زبان زدعام ہو کر اس علاقے کو ایک خوب صورت نام دے گئے۔ شیر شاہ سوری نے اس شہر کو سنوارنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ مرکزی عید گاہ، جامع مسجد مین بازار، شہر پناہ کے دروازے اور فصیل اس زمانے کی اہم تعمیرات میں سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق شہر خوشاب1503عیسوی میں آباد ہوا جبکہ اس کے گرد فصیل 1593میں مکمل ہوئی۔ 1809میں راجا رنجیت سنگھ نے خوشاب پر قبضہ کر لیا۔محمد شاہ کے زمانے میں خوشاب کا گورنر نواب احمد یار تھا جس کا مقبرہ خوشاب میں موجود ہے۔ دریائے جہلم کے کنارے آباد یہ شہر لا تعداد مرتبہ سیلابوں کی زد میں آکر تباہ ہوا۔ بالخصوص 1849اور1893میں دریائے جہلم میں آنے والی طغیانیوں میں سردار جعفر خان کا قلعہ، تارا چند اور نواب احمد خان کے باغات، فصیل اور دروازوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ شہرپناہ کی فصیل کو سہ بارتعمیر کیا گیا۔ اول مرتبہ شیر شاہ سوری نے، دوسری مرتبہ سردار لعل خان بلوچ نے 1761میں کچی فصیل کو پختہ بنا دیا جبکہ تیسری مرتبہ 1866میں انگریز ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے از سر نو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شہر کا نقشہ بنوا کر فصیل کو مکمل کیا۔ اس باردیوار شہر میں چار بڑے دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ،شمال کی جانب جہلمی گیٹ اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے ۔1865میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے تیس فٹ چوڑا اور تقریباََ ڈیڑھ کلو میٹر لمبا بازار بنوایا۔ اسی بازار خوشاب کے عین آغاز پر موجود کابلی گیٹ اپنی قدیمی شان و شوکت کا پرشکوہ منظر کچھ اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ جیسے آپ صدیوں پرانے شہر خوشاب میں داخل ہو رہے ہوں۔ حکومت انگلشیہ نے اس شہر کا نقشہ صلیب کی طرز پر بنایا۔1866میں کابلی گیٹ مکمل ہوا جس میں ڈاکخانہ اور پولیس چوکی قائم کی گئی۔ اور یہ شہر کی آخری حد تھی، جبکہ دوسرے سرے پر لاہوری گیٹ تھا جہاں پر ایک بڑا پتن بھی تھا۔1945تک دریائے جہلم شہر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہتا تھا لیکن فی زمانہ دریا شہر سے دور ہوتا چلا گیا اور اب تقریباََ ڈیڑھ میل دور مشرق کی جانب بہہ رہا ہے۔1700 ؁ء میں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا اور اس کا صدر مقام شاہ پور تھا۔ تزک بابری میں بابر نے خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ: ’’جمعہ کا دن تھا اور خوشاب کے باسیوں نے میری خدمت میں ایک وفد بھیجا جس کے جواب میں میں نے شاہ حسین بن شاہ شجاع ارغوان کا انتخاب کیا کہ وہ خوشاب جا کر وہاں کے لوگوں سے بات چیت کرے۔...‘‘ ترک جہانگیری میں بھی خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے : ’’یہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے جس کی آمدن 30لاکھ دام ہے۔ ‘‘ خوشاب سے ضلع خوشاب تک 1857کی جنگ آزادی سے صرف چار سال قبل1853میں تاج برطانیہ کے تحت اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا۔ بعد ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا ۔1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی تحصیل تھا،اور 1982میں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا جب اسے ضلع کا درجہ ملاتو یہ دو تحصیلوں خوشاب اور نور پور تھل پر مشتمل تھا۔ اب اس میں تحصیل قائدآ بادکا اضافہ ہو چکا ہے یو ں ضلع خوشاب چار تحصیلوں خوشاب ،نور پور تھل، قائد آباد اور ایک تحصیل نو شہرہ پر مشتمل ہے۔ اس کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ یہاں سرسبز میدان، پہاڑ اور صحرائی علاقے ہیں۔ ضلع خوشاب کے لوگ محنتی اور زراعت پیشہ ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادیاعوان اور بلوچ قبائل سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں کہ اکثر لوگ فوج میں شمولیت کو باقی پیشوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

صوبہ پنجاب کا خوبصورت ضلع خوشاب ،دریائے جہلم کے قریب ، سرگودھا اور میانوالی کے درمیان واقع ہے۔یہ ضلع خوبصورتی سے مالا مال ہے۔خوشاب کا نام فارسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے۔یہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔”خوش “کے معنی ”لذیذ “اور ”آب “کے معنی ”پانی “کے ہیں۔خوشاب کے بارے میں مشہور ہے کہ فارسیوں نے یہاں موجوددریائے جہلم کے پانی کی تعریف میں ”خوش آب “ کا لفظ استعمال کیا،اسکے بعد اس جگہ کا نام ”خوشاب“ پڑگیا۔سامراجی دور میں خوشاب ،تحصیل خوشاب کا ہیڈکوارٹر تھا۔1960 میں جوہرآباد کو پاکستان کا دارلحکومت بنانے کی تجویز زیر غور تھی مگر بعد میں اسلام آباد کو دارالحکومت بنا دیا گیا۔1998 ءکی مردم شماری کے مطابق اسکی آبادی کا کل تخمینہ 905,711 تھا جس کا 24.76 فیصد حصہ دیہات میں مقیم ہے۔اس ضلع کی آبادی مختلف قبائل پر محیط ہے۔ان قبائل میں ہاشمی سادات، آرائیں، سنگھا، ٹوانہ، پڑاچہ، سید، بلوچ، جنجوعہ، مانگٹ، شیخ شامل ہیں۔یہاں کے 45.3 فیصد لوگوں کو ذریہ معاش ذراعت ہے۔اس ضلع کی تین تحصیلیں ہیں جن میں تحصیل خوشاب، تحصیل نور پور اور تحصیل قائدآبادشامل ہیں ۔انکے ساتھ سب تحصیل نوشہرہ بھی شامل ہے۔اس کے اہم علاقوں میں قائد آباد،جوہر آباد،متھٹوانہ اور نوشہرہ شامل ہیں۔اسکے ہمسایہ شہروں میں سرگودھا،میانوالی،بھکر،جہلم اور جھنگ واقع ہیں۔یہ ضلع دفاعی اہمیت رکھتا ہے لحاظہ یہ پاکستان آرمی کیلئے بہت اہم ہے۔یہاںبھاری پانی اور نیچرل یورینیم ریسرچ ری ایکٹر ہے جو کہ پاکستان اسپیشل ویپنز پروگرام کا حصہ ہے،کی وجہ سے بہت حساس تصور کیا جاتا ہے اور یہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات موجود ہیں۔اس ضلع کے دیہاتی علاقوں میںکنڈ، ہڈالی، روڈا، جلال پور سیداں حمدانیہ، محب پور، بولا، نوشہرہ، رکھ راجر، جمالی، بمبول، شاہ والا،شاہ حسین،اوکھلی،بندیال و دیگر علاقے شامل ہیں۔یہاں کی مشہور شخصیات میں پیر نو بہار شاہ،ڈاکٹر پیر ولایت شاہ،پیر کلو شاہ اور سید واجد پیر زادہ ہیں۔

خوشاب قدرتی مناظر میں اپنی مثال آپ ہے۔دریائے جہلم اور اسکے ارد گرد ہریالی انسانی آنکھ کو بہت بھاتی ہے۔یہ منظر بہت سے شعراءنے اہپنی شاعری میں بھی بیان کیا ہے۔اس ضلع میں موجود پہاڑ اور صحرائے تھل مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سیاحوںکی توجہ کا مرکز ہے۔وادی سون سکیسر بھی ضلع خوشاب کی خوبصورتی کی گواہ ہے۔اس وادی نے ضلع خوشاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔جھیل اوچلی،جھیل خبکی اورجھیل سوڈھی جے والی بھی خوشاب کی خوبصورتی کی مثال ہیں۔خوشاب میں وادی سون سکیسرکے قریب ایک بڑا جنگل بھی ہے جس میںمختلف جنگلی حیات اورقیمتی درخت بھی پائے جاتے ہیں۔وادی سون سکیسر کو آرائیں برادری کا ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔یہاں پر آرائیں برادری کی اکثریت قطب شاہ کی وجہ سے ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ قطب شاہ یہاں رہائش پزیر تھے ۔اس وادی کے ایک گاﺅں پیل پیراں میں ہاشمی سادات(سید) ہیں ۔انکے بزرگ پیر خواجہ نوری کی تبلیغ کی وجہ سے اس یہاں کے لوگ بھاری اکثریت کئے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔اس وادی میں خوبصورت جھیلیں اور باغات ہیں۔
یہ وادی پہاڑی علاقے کے لحاظ سے صوبہ پنجاب میں مری کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔خبکی کے قریب کانتھی نامی ایک خوبصوت باغ بھی ہے۔یہ خوبصورت شہر رہائش کیلئے انتہائی موضوں ہیں۔خوشاب میں شرح خواندگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے شہری علاقوں میں شرح خواندگی 51.64 فیصد جبکہ اسکے دیہی علاقوں میں 36.70 فیصد ہے۔یہاں ملک کے نامور سرکاری و پرا ئیویٹ تعلیمی مراکز موجود ہیں۔اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے ایرڈ یونیورسٹی کا ایک کیمپس بھی ہے۔

ٰٰٰٓیہاں کے مشہور سیاسی خاندانوں میں ٹوانہ،اعوان،گجنیال،پدھر اور بلوچ شامل ہیں۔



ماضی میں یہاں سے سمیرا ملک،عمر اسلم خان،ملک تنویر سلطان اعوان،ملک عرفان احمد گھیبہ،سردار شجاع محمد خان،ملک سلطان محمود واہدل ٹوانہ،ملک بشیر اعوان،ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ،راجہ حسن نواز خان،فیصل عزیز،ملک افتخار حسین اعوان،ملک محمد جاوید اعوان،ملک محمد جاوید اقبال اعوان،ملک محمد سبطین شاہ نقوی،کرم الٰہی بندیال،محمد اقبال اتڑا،ملک احسان گنجیال،ملک حسن نواز گنجیال،ملک خالق داد اعوان،ملک عرفان احمد گھیبہ،ملک محمد اشفاق اعوان،انعام الرحمان،جاوید اقبال رندھاوا،ملک محمد نواید اقبال،محمد آصف ملک،محمد اسلم رضوان اسلم،محمد عمر خان،ملک محمد وارث کاہلو،گوہر جمال،جلیل احمد و دیگر امیدواران نے انتخابات میں حصہ لیا۔