مکہ کی فتح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمنوں سے سلوک
کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے تیرہ (۱۳) سالوں میں مکہ وَالوں نے آپ اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر کیا کیا ستم ڈھائے، انھیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، اُنھیں مکہ میں اَپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا حتیٰ کہ انھیں شہید تک کردِیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں دِی گئیں، آپ کے رَاستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی سر پر ڈالی گئی؛ یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وَہاں بھی اُن کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگِ بدر، جنگِ اُحد اور جنگِ احزاب کی نوبت آئی۔
لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں دَاخل ہوتے ہیں؛ لیکن دُنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ اَنداز میں ہر گز نہیں؛بلکہ نہایت تواضع اور اِنکساری کے ساتھ، سرِ مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ رَبُّ العزت کا شکر اَدا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اُس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ قریشِ مکہ آپ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے دِل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو اُنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔
آج اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کوئی اور دُنیا کا فاتح حکمران ہوتا تو اَپنے دُشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکمران کیا کرتے ہیں؛ لیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمة للعٰلمین ہیں، اخلاق کے اُونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اَعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود بارِی تعالیٰ نے فرمائی ہے:
”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“۔
(القلم:۲)
ترجمہ: اور بے شک آپ بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: أخٌ کریمٌ وابنُ أخٍ کریمٍ۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:
”لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ“․
(یوسف:۹۲)
ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔
یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذْہَبُوا فَأَنْتُمُ الطُلَقَاءُ۔”جاوٴ تم سب آزاد ہو“!
آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امن ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔
اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اُن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے لگے اور دُشمن کی بجائے دوست بن گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔