محمد خان ڈھرنالیہ



محمد خان ڈھرنالیہ کے مکمل حالات زندگی
چراغ بالی کے بارے پڑھنے کے لئے کلک کریں
ڈھرنال تحصیل تلہ گنگ کا ایک معروف قصبہ ہے جو تلہ گنگ سے میانوالی روڈ پر ترحدہ سٹاپ تقریباً دو کلومیٹر مشرقی جانب واقع ہے۔ محمد خان اسی قصبے کی نسبت کی وجہ سے محمد خان ڈھرنال کے نام سے مشہورہوا۔ محمد خان ڈھرنال کی پیدائش اسی قصبے میں ملک لال خان کے گھر 1927ءمیں ہوئی ۔ محمد خان کے والد فوج کی ملازمت کے بعد اپنی زمینوں کی کاشت کرتے تھے۔ محمد خان کا گھرانہ ایک کٹر مذہبی گھرانہ تھا۔ یہ کل پانچ بھائی اور ایک بہن پرتھے۔ سب سے بڑ ے بھائی کا نام رن باز خان ، اس سے چھوٹے کا نام علی خان اس کے بعد ہاشم خان پھر محمد خان اور سب سے چھوٹے بھائی کا نام محمد بشیر تھا۔ پانچوں بھائی جیل میں رہے۔ بڑے دونوں بھائیوں کو مخالفین نے قتل کرڈالا۔ ہاشم خان دوران مفروری گردے کی بیماری سے فوت ہوا لیکن پولیس نے برآمد کرکے ہاشم خان کے مردہ جسم پر گولیاں ماری اورپولیس مقابلہ شو کیا۔ اتنے ظلم کے باوجود محمد خان کی دکھیاری ماں 100برس تک زندہ رہی۔ بعد ازاں محمد خان کو گرفتاری کے بعد سیشن کورٹ نے چار مرتبہ سزائے موت اور 149 سال قید کی سزا سنائی۔ ہائی کورٹ میں محمد خان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا گیا۔ ہائی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت پر دوبار سزائے موت کی سزا ختم ہوئی۔ ڈیتھ کے بلیک وارنٹ جاری ہونے کے باوجود پختہ دار کو چوم کو واپس لوٹا۔ جس صبح سزائے موت پر عملدرآمد ہونا تھا عین لمحات پر ہائی کورٹ نے عملدرآمد روک دیا۔ اور ازاں بعد دو مرتبہ کی سزائے موت بھی عمر قید میں تبدیل ہو گئی۔ بینظر بھٹوکے پہلے دور حکومت میں 60 سال سے زائد عمر کے افراد کی سزا معاف کئے جانے کے صدارتی آرڈیننس کے تحت 1989ءمیں رہا ہوا۔ 12 سال سزائے موت کی کوٹھری میں قید تنہائی کاٹی اور بالاخر 29 ستمبر 1995ءکو اپنے گھر میں طبعی موت سے ہمکنار ہوا۔
محمد خان ڈھرنال اور اس کا بھائی ہاشم خان بڑے دلیر اوربہادر جوان تھے۔ تلہ گنگ پہلے اٹک کی تحصیل تھی اور تلہ گنگ میں پیر آف مکھڈ شریف کی اجارہ داری تھی۔ یہ دونوں بھائی پیر آف مکھڈ کے سیاسی نظریے کے مخالف تھے اور گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان نواب آف کالا باغ کے ہمنوا تھے۔ جبکہ محمد خان تو امیر محمد خان کو باپ جتنی عزت و تکریم دیتا تھا۔ اور یہ بات پیر آف مکھڈ شریف کو قطعاً پسند نہ تھی کیونکہ امیر محمدخان نواب آف کالا باغ اور پیر آف مکھڈ میں ذاتی رنجش تھی۔ محمد خان اورہاشم خان امیر محمد خان کی ایماءپر علاقے میں پیر آف مکھڈ کی رٹ کو چیلنج کئے ہوئے تھے۔ اور اسی رنجش پر پیر آف مکھڈ دونوں بھائیوں کو نشان عبرت بنانا چاہتا تھا۔ خود کی بجائے ڈھرنال کی معرف سیاسی شخصیت نمبردار ملک لعل خان کو استعمال کیا۔
محمد خان کم عمری میں ہی فوج میں بھرتی ہوا اور زیادہ وقت کشمیر کے محاذ پر گزارا۔ 1950ءمیں محمد خان ڈھرنال ایبٹ آباد میں سروس انجام دے رہا تھا کہ دو ماہ کی چھٹی پر گھر آیا اور یہیں سے تباہی و بربادی کی وہ داستان شروع ہوئی کہ غیر ملکی میڈیا بھی محمد خان ڈھرنال کی سنسنی خیز خبروں سے گونج اٹھا۔
محمد خان کی چھٹی ختم ہونے والی تھی کہ ملک لال خان نے ساز باز کرکے اپنے تین آدمیوں سے اپنے ہی گھر پر فائرنگ شروع کر دی۔ صبح ہوئی تو ڈھرنال سے ملحقہ تھانہ لاوہ میں محمد خان اور اس کے بھائی ہاشم خان پر 307 اور ارادہ قتل 392 ڈکیتی کا نامزد پرچہ درج کر دیا گیا۔ کہانی یہ بنائی گئی کہ یہ دونوں بھائی مسلح ہو کر لال خان کے گھراسے قتل کرنے اور ڈاکہ ڈالنے گئے۔ لال خان ہاتھ نہ لگ سکا تو مال لوٹ کر فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ اس کہانی نے محمد خان کے ہوش اڑا دیئے یہ سراسر زیادتی اور ظلم تھا لیکن کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا پولیس نے موقع ملاحظہ کر کے ملزموں کی تلاش شروع کر دی۔ محمد خان کی چھٹی ختم ہو گئی تھی اور اسے ایبٹ آباد نوکری پر حاضر ہونا تھا اس نے بھائی ہاشم خان اور ایک دوست فتح شیر خان سے کہا کہ وہ چکوال ریلوے اسٹیشن پر اسے ریل میں سوار کرا آئیںنمبر دار لال خان نے چکوال کے تھانے دار ان کی گرفتاری کا پیغام بھجوا دیا وہ پولیس کی بھاری نفری لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔وہ جونہی محمد خان ریل میں سوار ہونے لگا پولیس نے انہیں گرفتار کر لیااور متعلقہ جیل بھیج دیا گیا۔ تھانے دار نے محمد خان پر رائفل‘ اس کے بھائی پر پستول اور فتح شیر خان پر برچھی کی جعلی برآمدگی ڈال دی حالانکہ وہ تینوں خالی ہاتھ تھے‘ محمد خان کرائے اور خرچے کیلئے گھر سے پانچ سو روپے لایا تھا پولیس نے اس رقم کو ڈاکے میں لوٹی ہوئی رقم قراردے کر برآمدگی ڈال دی اور انہیں کیمبل پور منتقل کر دیا گیا فرضی ڈاکے کی کہانی تو گھڑ لی گئی اور حویلی کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات بھی اس ڈرامے کی کڑی ثابت کئے گئے لیکن اس میں نہ حویلی کا کوئی تالہ ٹوٹا ‘ نہ کسی دروازے کو نقصان پہنچا۔حویلی کے اندر بندھے ہوئے ڈھور ڈنگر بھی محفوط رہے کسی شخص کو معمولی خراش بھی نہ آئی۔ لیکن اس کے باوجود علاقے کی ایک معروف سیاسی شخصیت اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان پر ڈاکہ ثابت کر دیا گیا‘ مجسٹریٹ نصراللہ وڑائچ کی عدالت مں چھ ماہ مقدمہ چلا اور آخر اس کیس میں دونوں بھائی تین تین سال قید بامشقت کی سزا ہو گئی۔ تین سال سزا بھگت کر 1952ءمیں جیل سے رہا گئے۔
چھ مہینے سکون سے گزر گئے۔ محمد خان سوچ رہا ہے کہ اب معاملات ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اور ملک لال خان کو ملال اور شرمندگی ہو گی کہ بے قصور ان بھائیوں کو جیل بھجوایا۔ لیکن دوسری طرف انتقام کی آگ اسی طرح بھڑک رہی تھی۔۔ ایک خوفناک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے اور انہیں ملک امیر محمد خان کے حمایتی ہونے کی سزا دینے کی تیاری ہو رہی تھی۔
محمد خان کا بڑا بھائی ہاشم خان اکثر گر دے کے درد کی وجہ سے بیمار رہا کرتا تھا محمد خان اسے گاو 
¿ں سے قریب واقع ہسپتال کی جانب جا رہے تھے ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ نمبردار کے تین آدمیوں نے ان کا راستہ روک لیا‘ جونہی یہ بھائی قریب آئے انہوں نے چاقوں سے حملہ کر دیا ۔ محمد خان نے بہت منع کیا کہ میرا بھائی بیمار ہے میں نے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہا ہوں تم راستہ چھوڑ دو۔ لیکن انہوں نے ایک نہ مانی اور دونوں بھائیوں پر جھپٹ پڑے۔ محمد خان نے بھائی کو چھوڑا تیزی سے آگے بڑھا اور چاقو چھین لیا اور اسی چاقو سے ان پر پل پڑا۔ ایک آدمی شدید زخمی ہو گیا اتنے میں گاﺅں کے لوگ آ گئے انہوں نے بیج بچاﺅ کرایا ۔ اس روز ان پر دوبارہ 307 ارادہ قتل کا مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ یہ محمد خان کے ساتھ زندگی میں ہونا والا دوسرا شدید ظلم تھا‘ ان کا راستہ مخالف پارٹی کے آدمیوں نے روکا اس نے لڑائی کو ٹالنے کیلئے ہزار جتن کئے حملہ انہوں نے ان پر کیا‘ وہ تو اپنے بھائی ہاشم خان کو ہسپتال لے کر جا رہا تھا لیکن ارادہ قتل کاپرچہ دونوں بھائیوں پر ہوگیا‘ دونوں بھائیوں کودوبارہ تین تین سال قید بامشقت کی سزاہو گئی جبکہ مخالف فریق کا ایک شخض بھی قید نہیں ہوا اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی اور ہائی کورٹ نے انہیں باعزت طور پر بری کر دیا ۔ اب محمد خان مکمل طور پر باغی بن چکا تھا۔۔ اس کے ذہن میں ملک لال خان کے بارے میں طوفان برپا تھا اور ذہن میں بدلے کی اور نفرت کی آگ دہک رہی تھی۔۔ ابھی وہ گھرآئے ہی تھی کہ فوج سے ان کا بڑا رن باز خان بھی چھٹی پر گھر آگیا۔۔ اور تینو ں بھائی بدلہ لینے کا پروگرام بنانے لگے کہ اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور ایک دن ملک لال خان گاﺅں کے تین چار معززین کے ہمراہ ان کے گھر آ گیا۔ ملک لال خان نے قرآن پر قسم دی کہ اب وہ ان بھائیوں کے خلاف کوئی کارروائی اورزیادتی نہیں کرے گا اور اپنے کئے پر سخت نادم ہے ۔۔ سب بھائیوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کر دیا اور یوں ملک لال خان کے ساتھ ان کی دشمنی کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا ۔ گاﺅں میں اور کسی کے ساتھ ان کی دشمنی تھی نہیں اس لئے وہ بھائی سوچنے لگے کہ اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے لیکن دوسری طرف پیر آف مکھڈ کو اس دشمنی کو دوستی میں تبدیل ہوتے کیسے دیکھ سکتا تھا۔
جب پیر آف مکھڈ نے ملک لال خان کا وار ناکام جاتے دیکھا تو ڈھرنال کی ایک اور پارٹی مولا بخش سے رابطہ کیا۔ مولا بخش محمد خان کا ننہالی رشتہ دار تھا۔ محمد خان نے مولا بخش کے خاندان میں 1954 کے آخر میں پسند کی شادی کی تھی اس شادی میں مولابخش کے خاندان کا کوئی فرد شریک نہ تھا۔ مولا بخش کو یہ دکھ تھا کہ اس کی مرضی کے بغیر شادی کیوں ہوئی ہے۔ اس خاندان کی پہلے ہی محمد خان کے خاندان سے ان بن چلی آ رہی تھی اس کی پسند کی شادی نے جلتی پر تیل کا کام کیا وہ محمد خان اور اس کے بھائیوں کے مخالف ہو گئے پیر صاحب کو اس کے بہتر موقع ہاتھ نہیں آ سکتا تھا اس نے مولابخش اور اس کے خاندان کو اتنا بھڑکا دیا کہ وہ ان کے خون کے پیاسے ہو گئے پیر مکھڈ شریف اور دوسرے مخالف سیاسی عناصر نے انہیں کہا کہ وہ دونوں بھائیوں ہاشم خان اور محمد خان قتل کر دیں اور یقین دلایا کہ انہیں نہ صرف کیس سے بری کروایا جائیگا بلکہ ہر طرح کی امداد بھی دی جائیگی پیر صاحب کا تیر ٹھیک نشانے پر لگا۔ محمد خان روز اپنے کھیتوں میں جایا کرتا اس کے پاس لکڑی کی ایک چھڑی ہوا کرتی تھی یا بھائی کو لیکر ہسپتال جاتا۔ مولابخش پارٹی نے ریکی شروع کر دی اور ان دونوں بھائیوں کامعمول نوٹ کرنے لگے۔۔ یہی وجہ تھی کہ اس روز بھی وہ حسب معمول صبح اٹھا ہاتھ میں بید کی چھڑی پکڑی اور تمام خطرات سے بے نیاز کھیتوں کی جانب نکل کھڑا ہوا‘ اس کا پھوپھی زاد بھائی فتح شیر اپنی زمینوں میں کام کر رہا تھا محمد خان اس کے پاس جاکر بیٹھ گیا حقہ پیا دونوں بھائی گپیں ہانک رہے تھے کہ سامنے سے ایک شخص سخت بدحواسی کے عالم میں ان کی جانب دوڑ تا ہوا دکھائی دیا وہ اس کے قریب آیا اس کے چہرے کا رنگ اڑ اہوا تھا سینے میں سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اس شخص کو محمد خان کی ساس نے اطلاع کیلئے بھیجا کہ کھیتوں سے واپسی پر وہ دوسرے راستے سے گھر آئے کیوں کہ کم و بیش 90 مسلح افراد نے اسے قتل کرنے کیلئے بڑے راستے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
یہ 1955ء کامارچ کا مہینہ تھا علاقہ میں گندم کی فصل پک کر تیار کھڑی تھی زمینداروں کیلئے انتہائی مصروفیت کے دن ہوتے ہیں لیکن مولابخش کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ محمد خان کو قتل کرنا ہے۔ اس نے بلوے یا ڈاکے کا پروگرام ترتیب دے رکھا اور جوں ہی محمد خان انکے نرغے میں آتا وہ اسے نوچ کھاتے۔ فتح محمد اسی خدشے کے پیش نظر ایک برچھی لے کر اس کے ساتھ ہو لیا‘ محمد خان کا ذہن ابھی تک اس اطلاع پر یقین نہیں کر رہا تھا کیونکہ اتنی بڑی دشمنی تو کسی کے ساتھ نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ اس نے گھر کو آتے وقت دوسرا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ اسی راستے سے گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ تا ہم اس کے دل کے کسی گوشے میں خوف کی ایک لہر ضرور موجود تھی وہ اور فتح خان بڑے محتاط انداز میں دائیں بائیں دیکھتے گھر کی جانب جارہے تھے جونہی گاﺅں کے درمیان پہنچے تو چھڑیوں‘ کلہاڑیوں اور بندوقوں سے مسلح دس ‘ دس‘ پندرہ‘ پندرہ آدمی مختلف پوزیشنیں سنبھال کر چھپے بیٹھے تھے‘ انہوں نے اس کے گھر کے راستے کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی تھی‘ اب اسے خطرے کا احساس ہوا مسلح افراد میں سے ایک شخص نے اسے للکارا وہ اسی جگہ رک گیا وہ ہاتھ میں برچھی پکڑے سیدھا محمد خان کی جانب دوڑتا ہوا آیا۔
اب محمد خان نہ پیچھے مڑ سکتا تھا نہ گھر جا سکتا تھا یہاں چھپنے کیلئے کوئی جگہ بھی نہیں تھی مخالف پارٹی کے آدمیوں نے تمام اطراف سے اسے گھیر رکھا تھا جب اس نے دیکھا کہ موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہے تو اس کے ذہن نے برق رفتاری سے ایک فیصلہ کیا جب مرنا ہی ہے تو بزدلوں کی طرح جان کیوں دی جائے زندگی کوئی تحفہ نہیں جو دوسروں کی جھولی میں ڈال دی جائے‘ چنانچہ اس نے فح محمد سے برچھی لے لی اور جونہی وہ شخص تیزی سے بھاگتا ہوا برچھی لہراتا آگے بڑھا اس نے برچھی مارنے کیلئے فضا میں بلند کیا ہی تھا کہ آنافانا محمد خان نے اپنے ہاتھ میں پکڑی برچھی اس ک سینے میں اتار دی‘ برچھی اس کے دل کوچیرتی ہوئے دوسری جانب نکل گئی اس شخص کا نام مہر خان تھا اور وہ مسلح افراد کا لیڈر تھا‘ خون کی ایک تیز دھار زمین کو سرخ کر گئی وہ زور دار چیخ کے ساتھ اسی جگہ ڈھیر ہوگیا۔ یہ محمد خان کی زندگی کا پہلا قتل تھا جو حفاظت خو د اختیاری کے تحت مجبوراً کیا گیا‘ مہر خان کے مرتے ہی شور برپا ہوا آس پاس چھپے افراد شور و غل کرتے اور للکارتے ہوئے پاگلوں کی طرح محمد خان پر ٹوٹ پڑے اتنے سارے لوگوں سے جان بچانا بہت مشکل تھا اس جگہ فوج کی ٹریننگ اس کے کام آئی جن لوگوں کے پاس بندوقیں تھی جب انہوں نے اس پر گولیوں کی بارش کر دی اور وہ زمین پر لیٹ گیا اور رینگتے ہوئے ایک جانب پناہ لینے کیلئے کہنیوں کے بل بھاگا لیکن وہ خود کو گولیوں کی زد سے محفوظ نہ کر سکا اس اثناء میں تین گولیاں سنسناتی ہوئی اس کی شلوار میں سوراخ کرتے ہو ¿ے گزر گئیں اتفاق کی بات ہے کہ کوئی گولی اسے نہیں لگی حالات نے اس کی بہت مدد کی وہ اس طرح کلہاڑیوں اور برچھیوں والے ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ محمد خان ان کی اوٹ میں تھا اگر بندوق بردار اسے گولیوں کا نشانہ بنانا چاہتے تو ان کے اپنے آدمی ان کی فائرنگ کی زد میں آجاتے جب وہ ایک جانب کو ہونے لگتے تو وہ پیچھے مڑ کر ان کی برستی گولیوں کے آگے کر دیتااس حالت میں گولیوں سے بچتے بچتے وہ ایک رشتہ دار کے ڈیرے پر پہنچ گیا اور دروازہ بند کر کے ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیا وہ مسلح افراد کلہاڑیاں فضا میں اچھالتے اور لگا تار فائرنگ کرتے ہوئے ڈیرے پر آگئے اور انہوں نے مکان کو گھیرے میں لے لیا‘ پورے گاﺅں میں قیامت کاسماں تھا‘ بچے‘ بوڑھے سب ڈر کے مارے گھروں میں چھپ گئے لوگوں کے دل حلق میں اٹک کر رہ گئے تھے‘ دن کے دس بچ چکے تھے انہوں نے مکان کا دروازہ توڑنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے پھر چند افراد چھت پر چڑھ گئے تاکہ چھت پھاڑ کر اندر داخل ہو سکیں جب وہ ایسا نہ کر سکے تو سب نے مل کر دروازے کو توڑ دیا“ وہ دیوار سے لگ کر کھڑا تھا لگا تار فائرنگ ہو رہی تھی گولیاں اس کے سر کے اوپر سے ہوتی ہوئی سامنے بڑی دیوار میں لگ رہی تھیں وہ اس وقت جرات کرتے تو اندر داخل ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار سکتے تھے لیکن کسی کو اندر آنے کا حوصلہ نہ ہوا غالبا ان کا خیال تھا کہ اسکے پاس مہلک ہتھیار ہیں ان میں سے چند لوگوں نے کہیں سے سوکھی ہوئی جھاڑیاں منگوائیں انہیں دروازے کے ساتھ رکھ کر آگ لگانے کی کوشش کی وہ مکان کو آگ لگا کر اسے اندر جھلس کر دینا چاہتے تھے ۔آگ منصوبہ میں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے ایک اور چال چلی وہ یہ کہ ایک ادھیڑ عمر عورت مہر بھری کو مکان کے اندر جانے پر آمادہ کر لیا مہر بھری سے کہا گیا کہ وہ اندر جاتے ہی محمد خان کو پکڑے اور شور مچا دے پھر مشتعل ہجوم مکان میں داخل ہوکر محمد خان کو پکڑے گا اور کسی دوسری جگہ لے جا کر قتل کر دیا جائیگا۔ مہر بھری کوئی اچھی عورت نہ تھی‘ ان کاخیال تھا کہ علاقے کے رواج کے مطابق محمد خان عورت پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا اور پکڑا جائیگا لیکن وہ ان کی چال کو تاڑ گیا جو نہی مہر بھری نے مکان کی دہلیز عبور کی محمد خان نے اسے برچھی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا جب ان کا یہ حربہ ناکام رہا تو ہجوم مزیدبپھر گیا‘ اس اثناء میں محمد خان کے بھائی ہاشم خان کو حالات کا پتہ چل گیا اوروہ اسی وقت بہت سے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ پر پہنچ گئے دونوں طرف سے زبردست فائرنگ کاتبادلہ ہوا آخر کار مخالف پارٹی مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑی ہوئی جاتے ہوئے انہوں نے محمد خان کے پھوپھی زاد بھائی فتح محمد اور چچا زاد بھائی عزیز خان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور دو رشتہ داروں محمد خان اور زور خان کو شدید زخمی کر دیا البتہ محمد خان اور ہاشم خان کی جان بچ گئی گاو ¿ں کے چوراہے میں مہر خان کی اور ڈیرے پر مہر بھری کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی جبکہ محمد خان کے دو بھائیوں کی لاشیں بھی کچھ فاصلے پر پڑی تھیں اس کے دو گھنٹے بعد تھانہ لاوے کا ایس ایچ او پولیس کی گارڈ لے کر گاﺅں آگیا‘ ہاشم خان تو گھر چلا گیالیکن محمد خان بھاگ کر تلہ گنگ آگیا یہاں سے اس نے آئی جی پنجاب‘ علاقہ مجسٹریٹ‘ اور کمشنر کو اس حادثہ سے متعلق تاریں ارسال کیں جن میں لکھا کہ پولیس مخالف فریقین سے ملی ہوئی ہے اس لئے سپیشل کرائم برانچ سے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں اس نے تاروں اور درخواستوں میں مخالف پارٹی کے 22 افراد کے نام لکھے تھے اور حکام سے استدعا کی تھی کہ انکا بھی چالان کیا جائے کیونکہ اسے علاقے کی پولیس سے انصاف کی توقع نہیں تھی پولیس نے لاشیں اپنے قبضہ میں لے لیں تیسرے دن کرائم برانچ کا انسپکٹر گاو ¿ں میں پہنچ گیا۔ تحقیقات شروع ہوئیں‘ محمد خان اور اس کے بھائی ہاشم پر قتل کا پرچہ درج ہو گیا اور چوتھے روز انہیں گرفتار کر لیا گیا جبکہ مخالف پارٹی کے 22 افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا سب کا چالان کر کے متعلقہ جیل میں بند کر دیا گیا‘ کیمبل پور کے سیشن کورٹ کی عدالت میں سال بھر مقدمہ چلا آخر میں محمدخان کو 14 سال قید بامشقت کی سزاہو گئی‘ البتہ ہاشم خان بری ہو گیا‘ مخالف پارٹی کے 22 افراد کو 48,48 سال کی سخت سزائے قید ہوئی یہ 1956ءکا دور تھا اس وقت ہائی کورٹ پشاور میں تھی ہاشم خان نے محمد خان کی سزا کیخلاف عدالت میں اپیل دائر کر دی اس مقدے کی پروری نامور وکیل پیرا بخش نے کی جبکہ پیر صاحب کے کہنے پر مخالف پارٹی کا کیس خان عبدالقیوم خان مرحوم نے لڑا‘ کیس جسٹس حبیب اللہ خان کی عدالت میں لگا‘ یہ وہی حبیب اللہ خان تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سینٹ کے چیئر مین بھی رہے پہلی پیشی پر ہی یہ بیمار ہو گئے اور کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی‘ ان حالات کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عزیز احمد اور ایک انگریز جج پشاور میں اس مشہور قتل کیس کی سماعت کیلئے حکومت نے تعینات کیے اس سپیشل جج کے رو بروآٹھ ماہ تک مقدمہ کی سماعت جاری رہی سپیشل جج نے دونوں فریقین کو بری کر دیا‘ محمد خان رہا ہو کر گھر پہنچا تو خدا کا شکر ادا کیا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ گیا‘ اب وہ دشمن کی جانب سے محتاط رہنے لگا تھا سب مخالفین کے چہرے محمد خان کی نظروں کے سامنے تھے 6 ماہ نہایت امن و سکون کے ساتھ گزرے نہ اس نے کوئی چھیڑ کی نہ مخالف فریقین نے کوئی سازش کی۔
محمد خان پر سکون زندگی گزارنے کی جدوجہدکر رہا تھا لیکن مولانا بخش پارٹی مسلسل منصوبے بنا رہی تھی۔ اکتوبر 1958ءمیں ایوب خان کرسی اقتدار پر بیٹھے تو ملک امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر بن گئے۔ 15 مئی 1958ءکو اچانک رات گئے مولا بخش کی پارٹی نے محمد خان اور ہاشم خان کو اپنے گھر میں محصور کرکے فائرنگ شروع کر دی۔ محمد خان اور ہاشم خان نے معاملے کو ٹالنے کی بہت کوشش کی ۔ جب کچھ نہ بن پایا تو مرنے سے لڑنے کوبہتر جانا اور دونوں بھائی بندوقیں لے کر گھر کے اندر مورچہ سنبھال کر بیٹھ گئے ۔تقریباً 40 افراد نے ان کے گھر کامحاصرہ کیا ہوا تھا۔ گھر کے دائیں جانب محمد خان رائفل اور ڈھیر ساری گولیاں لے کر بیٹھ گیا اور بائیں جانب اس کا بھائی ہاشم خان ، وہ مکان کے اندر سے باہر کھڑے مسلح افراد کی ہر حرکت کو دیکھ سکتے تھے لیکن خود ان کی نگاہوں سے اوجھل تھے جب ان دونوں نے تاک تاک کر انہیں گولیاں سے بھوننا شروع کر دیا آن کی آن میں 9 افراد اسی جگہ مو ت کے گھاٹ اتر گئے ۔
یہاں پھر جانبداری سے کام لیا گیا۔ مولانا بخش کی پارٹی نے محمد خان کے گھرپر فائرنگ کی تھی۔ گھرکی دیواروں پر ہزاروں گولیوں کے نشان تھے۔ بجائے حقیقی تفتیش ہوتی جانبداری سے کام لیتے ہوئے ۔ محمد خان، ہاشم خان، رن باز خان، ان کے بہنوئی ماسٹر علی خان، بہنوئی کے بھائی محمد صادق اور محمد عارف کے خلاف نامزدپرچہ نامزدکر دیا گیا۔ یعنی وہ بندے بھی پرچے میں نامزدکئے گئے جو موقع پرموجود ہی نہ تھے۔ رن باز خان آرمی سے چھٹی پر تھاوہ واپس اپنی یونٹ چلا گیا جبکہ محمد خان اوراس کا بھائی ہاشم خان مفرور ہو کروادی سون کے پہاڑوں پر چلے گئے اور باقی بندوں کوپولیس نے گرفتار کرلیا اور اٹک میں کیس چلنا شروع ہوگیا۔ محمد خان کا بڑا بھائی ہاشم خان ہر پیشی پر اٹک عدالت میں حاضری دیتا تھا۔ 1961ءسٹارٹ ہو چکا تھا۔ اور ایک ظلم ہونے کو تیار تھا۔ ایک پیشی پر رن باز خان اٹک آیا ہوا تھا اور ایک ہوٹل پر قیام پذیر تھا اس دن جمعہ کا دن تھا۔ اٹک کی ایک مسجد میں رن باز جمعہ ادا کرکے جونہی باہر نکلا مخالف پارٹی نے فائرنگ کرکے موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ رن باز خان کے مقدمہ قتل میں نو افراد کو نامزد کیا لیکن پیر آف مکھڈ شریف کی خصوصی کرم نوازی سے یہ نو افراد تیسرے ہی دن رہاہوگئے۔ البتہ جو مقدمہ محمد خان، ہاشم خان اوردوسرے افراد پر چل رہا تھا اس مقدمے میں تمام افراد رہا کردیئے گئے البتہ محمد خان اورہاشم خان کو مفرور قرار دے دیا گیا۔ وادی سون کے پہاڑوں میں محمد خان اور ہاشم خان کو ان کے بڑے بھائی رن باز خان کے قتل کی اطلاع دی گئی تو ان کے دلوں پر بجلی سی گر گئی۔ اور اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے پلاننگ کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے پہاڑوں پر اپنے دوستوں کی مدد سے باقاعدہ گروہ ترتیب دے لیا تھا۔ جو ان کی ہر ممکن مدد کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہر طرف محمد خان کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا اورلوگ محمدخان کے نام سے کانپتے تھے



محمد خان اور اس کا بھائی ہاشم خان وادی سون کے پہاڑوں کواپناگھربنا چکے تھے ۔ پولیس ان کی گرفتاری کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے تھی لیکن وہ پولیس کے لئے چلاوہ بن چکے تھے۔ کئی مرتبہ پہاڑوں پر پولیس نے ریڈکیا کئی مرتبہ ان کے قریب سے پولیس گزر گئی لیکن وہ پولیس کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔ پولیس کو آرڈر تھا کہ زندہ یا مردہ ان دونوں بھائیوں کو گرفتار کیا جائے۔ اس دوران آس پاس کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جس سے پولیس نے یہ تاثر دیا کہ یہ وارداتیں محمد خان خود کرتا ہے یا اپنے بندوں سے کرواتا ہے حالانکہ ایسا نہیں تھاوہ رو پوش ضرور تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ پیر مکھڈ شریف اور دوسرے بااثر اشخاص پولیس کے ہاتھوں اسے مروا دینا چاہتے تھے اگراسے پولیس کے اس ارادے کا علم نہ ہوتا تو یقیناًعدالت میں حاضر ہو جاتا ہر شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہے وہ فوج سے گھر چھٹی آیا تھا تو ملک لال خان نے ڈاکے اور قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا پھر گھیر کر اسے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی گئی بااثر افراد کی وجہ سے مولابخش اور اس کے آدمی مقدمات میں ایک بار بھی کڑی سزا نہیں پا سکے‘ پھر محمد خان کے گھر کا محاصرہ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے مسلح افراد نے دھاوا بول دیا مگر مقدمات بھی محمد خان اور اس کے خاندان پر قائم ہوئے مخالف فریق صاف بری ہو گیا یہ واقعات اس کے ذہن میں پتھر پر لکیر کی طرح نقش تھے ان بے انصافیوں نے اسے ایک نیا ذہن نئی سوچ اور الگ تھلگ کردار کا مالک بنا دیاتھا وہ ظالم سفاک قاتل اور لٹیرا نہیں تھا وہ تو اپنی جان بچانے کیلئے پہاڑوں کی وادی میں تنہائی کے مظالم سہ رہا تھا اگرچہ اس کا والد وفات پا چکا تھا تا ہم گھر میں بھائی فتح شیر ایک بوڑھی ماں اور بہن موجو دتھی اسکا دھیان ہر وقت ان کی جانب رہتا تھا وہ کئی مرتبہ پولیس کا گھیرا توڑ کر گھر آیا اور بہت دیر تک گھر رہ کر پھر رو پوش ہو جاتا پولیس یہ خیال کر رہی تھی کہ اس نے ڈاکوﺅں‘ چوروں اور قاتلوں کا ایک گروہ تیار کر رکھا ہے جو ہینڈ گرنیڈوں‘ آتشیں اسلحہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہے یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ اسکے قریب ہوتے ہوئے پولیس نے گولی نہیں چلائی۔وادی سون میں محمد خان کے ساتھیوں‘ عزیز رشتہ داروں اور بعض پولیس والوں کا تعاون بھی اسے حاصل رہا۔ بہت سے مقامی اعوان اس کے دوست بن چکے تھے وہ اسے خطرات سے آگاہ کر دیتے اور حالات سے پوری طرح باخبر رکھا کرتے یہی وجہ تھی کہ وہ پولیس کارروائی سے قبل ہی حفاظتی انتظامات کر لیا کرتا تھا۔ اس دوران اس کے دوستوں نے محمد خان کو بچانے کیلئے یہ مشہور کر دیا کہ وہ ایک خونی لٹیرا بن گیا ہے۔
اس نے پہاڑوں میں ایک بنک قائم کر رکھا تھا اس کے ہزاروں ساتھی وادی سون میں گھومتے رہتے اور وہ لوگوں کو پکڑ کر قتل کر دیا کرتا تھا اس کے خفیہ اڈے قائم تھے یہ تاثر بالکل غلط ہے‘ وہ فلمی ڈاکووں کی طرح پہاڑ میں سردار نہیں بنا بیٹھا تھا‘ اسکے پاس اسلحہ تھا ‘ حفاظت خود اختیاری کا پورا سامان تھا اسے لمحہ لمحہ کی خبر رہتی تھی لیکن اس نے ڈاکووں کا کوئی گینگ تیار نہیں کیا ہوا تھا بلکہ اس نے اس علاقہ میں امن و امان بحال کرنے کی پوری کوشش کی تھی ہو سکتا ہے بعض اوچھے لوگ اس کا نام استعمال کر کے وارداتیں کرتے ہوں اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ اس کے علم میں لایا گیا تو اس نے سختی سے اس کا نوٹس لیا‘ اسے تو ہر وقت اپنے بھائی ہاشم خان کی فکر لگی رہتی وہ درد گردہ کا پرانا مریض تھا۔
ابھی رن باز خان کو قتل ہوئے چارماہ کاوقت ہی گزرا تھا کہ ہاشم خان طبیعت خراب ہو گئی۔ اس کے پاس دوائیاں موجودتھیں لیکن ان سے آرام نہیں آیا۔ کسی ہسپتال میں وہ بھائی کو لیکر نہیں جا سکتا تھا۔ بالآخر اسی رات محمد خان کی جھولی میں ہاشم خان کا دم نکل گیا۔ صبح ہوئی تو اس نے اپنے ساتھیوں کو کہاکہ ہاشم خان کی تدفین کا بندوبست کرنے کیلئے اس کی لاش کو اس کے دیرینہ دوست محمد خضر حیات کے ڈیرے پر پہنچادیں ۔ یہ لاش وہ اس لئے بھجوا رہا تھا کہ معززین کی نگرانی میں اس کے بھائی کی لاش کو سپرد خاک کیا جا سکے۔ پولیس کو اس کی اطلاع ہو ئی پولیس نے راستے میں ہی ساتھیوں سے اس بھائی کی لاش چھین لی اور لاش پر گولیاں برسا کر پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ لی‘ اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ڈاکو محمد خان کا بھائی ہاشم خان پولیس مقابلہ میں مارا گیا‘ محمدخان کو اس کا بے حد دکھ ہوا وہ تو رو پوش تھا اس وقت کیا کر سکتا تھا پولیس خود اس کی تاک میں تھی‘ لیکن اب محمد خان حکمت عملی تبدیل کرلی۔۔ اس نے اپنا مسلح گروہ بنا لیا۔۔ اس کے ارد گرد رضا کار لوگ اکھٹا ہو گئے۔۔ روپوشی کے دوران وہ وادی سون ، تھوہا محرم خان، چینجی کوٹیڑہ اور بھلومار کے غریب لوگوں کی بے انتہاء مدد کیا کرتا تھا۔۔ اس بنا پر غریب لوگ اسے مسیحا ماننے تھے۔۔ جب وہ طاقت اختیار کر گیا تو ہاشم کی وفات کے ٹھیک پانچ ماہ بعد اس نے رو پوشی کی زندگی ترک کرتے ہوئے پولیس تھانہ ٹمن میں واقعہ ڈھوک مصائب میں مستقل رہائش اختیار کر لی ۔ ڈھوک مصائب تلہ گنگ میانوانی روڈ پر بڈھر ونہار سے تھوڑا پہلے دائیں جانب ہے۔ اب مخالفین نے جب اس کے ساتھ رضا کاروں کی فوج دیکھی تو وہ بھی خوفزدہ ہو گئے ہزاروں کی تعدادمیںرضا کار ہر وقت اس کے ساتھ رہتے تھے۔ اب مولا بخش پارٹی کو جان کے لالے پڑ چکے تھے وہ بھی محمد خان سے راضی نامہ کے لئے کوشاں تھے۔ اس دوران محمد خان نے ملک امیر محمد خان کا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے انتظامیہ میں بھی اپنی جان پہچان بنا لی۔ قتل کے مقدمے بدستور اس کے خلاف قائم تھے پولیس کو اس کو تلاش بھی کر رہی تھی لیکن اس کے حالات بدل چکے تھے ۔ پولیس جہاں چھاپہ مارتی مقامی لوگ ڈنڈے لیکر پولیس کو بھگا دیتے۔ بلکہ اب تو اس کے نام کا اتنا ڈنکا بج چکا تھا کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اس سے دوستی کے خواہاں تھے۔ جب محمد خان نے ڈھوک مصائب پر ڈیرہ لگایا تو اس کی دہشت کے سائے وادی سون سے نکل کر تحصیل چکوال‘ تحصیل پنڈی گھیب اور نواحی علاقوں تک پھیل گئے تھے‘ اس نے اس جگہ آتے ہی تمام گھر والوں کو بھی بلالیا‘ اس کا مخالف فریق چل کر اس کے پاس آگیا‘ اس نے اس سے صلح کر لی اب محمد خان کا وہ دور شروع ہوتا ہے اس کی الگ ریاست قائم کرنے سے تشبیہ دی جاتی ہے‘ محمد خان نے جس طرح قانون و انصاف کا خون ہوتے ہوئے دیکھا انسانیت کی توہین اپنی آنکھوں سے دیکھی اس کے ساتھ جو ظلم و ستم روا رکھا گیا اس نے نفسیاتی رد عمل کے طور پر اسے ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تحریک دی جس میں کمزور اور طاقتور برابر ہو سکیں جہاںرشوت ، سفارش اور ٹیلی فونوں پر انسانی قسمت کے فیصلے نہ ہوں‘ ظالم کو کڑی سزا ملے اور مظلوم کو اس کا حق دلا سکے ۔ محمد خان کی شخصیت کا رعب دبدبہ تھا کہ پورے ضلع میں پولیس کے ڈی ایس پی سے لیکر اک سپاہی تک اس کی اجازت کے بغیر گاﺅں میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ اپنے ڈیرے سے دور دور تک اس کے چیک پوسٹیں بنا رکھیں تھیں جن میں چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مارسکتا تھا۔
۔۔
اور پھرمحمد خان نے اپنی ریاست قائم کرلی
۔۔۔
جب محمد خان نے اپنے گرد حصار مستحکم کرلیا ۔ پولیس اورانتظامیہ کو اپنا ہم نوا بنا لیا تو لوگوں اس کو مسیحا ماننے لگے۔ لوگ پولیس کے پاس جانے کی بجائے اپنے مسائل اورمقدمات کے حل کیلئے محمد خان سے رجوع کرنے لگے۔ وہ زیادہ پڑھا ہوا نہیں تھا لیکن تجربے نے بہت کچھ سکھایا تھا اس نے اپنی الگ عدالتیں لگانا شروع کر دیں وہ لوگ جو جان کے دشمن تھے اس کے خوف سے لرزنے لگے پولیس آفیسر‘ تحصیل دار‘ دوسرے محکموں کے سربراہ اس کے پاس آیا کرتے اور پاس بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے ہیں۔ محمد خان ان عدالتوں کا سربراہ اعلیٰ ہوا کرتا تھا۔ اس کے پاس سینکڑوں سپاہی ہوا کرتے جنہیں وہ خود بھرتی کیا کرتا انہیں باقاعدہ تنخواہ دی جاتی تھیں۔ ہزاروں رضا کار تھے۔ باقاعدہ مقدمات کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا سب کاروائی عام عدالتوں کی طرح لکھی جاتی۔ شہادتیں لی جاتیں مقدمات کی انکوائری کی جاتی وارنٹ جاری کئے جاتے اور محمد خان نے اپنے مسلح سپاہی ملزموں کو پکڑ کر لایا کرتے تھے۔ محرر تمام کارروائی نوٹ کرتا اس کے ساتھ علمائے کرام بیٹھا کرتے تھے تمام مقدمہ کی کاروائی سننے کے بعد و ہ قرآن و سنت کے روشنی میں جو فیصلہ دیا کرتے ہیں وہ ان پر دستخط کر کے اور اپنے سامنے عمل درآمد کرایا کرتا تھا۔ سپاہیوں کے پاس اسلحہ ہوا کرتا تھا اگر کوئی شخص محمد خان کی عدالت کا حکم ماننے سے انکار کر تا دیتا تو طاقت کے ذریعے اس پر عمل کرایا جاتا جب اس کی عدالتیں لگا کرتی تھی تو ارد گرد کے تھانے اجڑ گئے، تحصیلیں سونی ہو گئی تھیں اور دوسرے انصاف مہیا کرنے والے ادارے بالکل ویران ہو گئے‘ چار سال تک متذکرہ علاقوں پر اسکا مکمل کنٹرول رہا۔ وادی سون ‘ تحصیل چکوال ‘ تحصیل پنڈی‘ گھیب اور تلہ گنگ کے علاقوں میں اس کا سکہ جاری تھا۔ اس کی اجازت کے بغیر ان علاقوں پرمشتمل ریاست میں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔ ان علاقوں کی انتظامیہ بالکل بے کار ہو کر رہ گئی تھی یہ درست ہے کہ وہ 1963ء سے 1966 میں تک اپنی ریاست کا بے تاج باد شاہ تھا اس کی عدالتوں میں 302 کے علاوہ ہر قسم کے مقدمات پیش ہوا کرتے تھے ۔ اس دوران 1964ءکے صدارتی انتخابات آ گئے۔ محمد خان کی اتنی طاقت تھی کہ وادی سون، تحصیل تلہ گنگ اور پنڈی گھیب کے تمام بی ڈی ممبروں اور چیئرمینوںکے ووٹ صدر ایوب خان کو دلوائے تھے‘ 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان سے جنگ شروع کی تو اس نے جنرل محمد موسیٰ اور صدر ایوب خان کو تار دی کہ اسے پانچ ہزار مجاہدین کو لے کر محاذ جنگ پر جانے کی اجازت دی جائے اسے اس تار کا جواب آیاکہ ابھی انتظار کرو بعد میں جنگ بندی کے باعث اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔ اس دوران اس کا اثرو رسوخ پورے علاقے میں مشہور ہوچکا تھا۔ پولیس بھی اس کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرتی تھی۔ لیکن اس وقت کے تمام لوگ شاہد ہیں کہ اس نے اتنی طاقت پکڑنے کے باوجود اپنے مخالفین کو تنگ نہ کیا۔ پورے علاقے میں مشہور زمانہ امن و امان قائم کیا۔ کسی بندے کو تنگ نہ کیا۔ کوئی چوری یا ڈاکہ نہیں ڈالا۔ ہاں جو کیس اس کی عدالت میں لائے جاتے ان سے واجبی جیب خرچ لیا جاتا جرمانہ کی صورت میں اصل رقم مالک کو واپس کر دی جاتی تھی اور اس میں سے صرف 30 روپے رکھے جاتے تھے تاکہ اہلکاروں کی تنخواہیںادا ہو سکیں۔ اس دوران سارا سارا دن وہ کچہری لگائے رکھتا اورلوگوں کے فیصلے کرتا رہتا۔ حتی ٰ کہ بعض اوقات رات بھی ہو جاتی۔ یہ قدرتی امر ہے کہ جب کوئی طاقت پکڑتا ہے تو لوگ اس کے گرد اکھٹا ہو جاتے ہیں۔
بعد ازاں اس نے یہ عدالتیں مختلف علاقوں میں سرکاری ریسٹ ہاﺅسوں میں لگانی شروع کر دیں۔ وہ ہفتہ وارپروگرام ترتیب دیتا اس کے اہلکار ہر علاقے کی مساجد میں اعلان کراتے ہیں کہ محمد خان فلاں دن فلاں جگہ کچہری لگائے گا۔ اس کے اہلکاروں کے پاس بے پناہ اسلحہ تھا لیکن سارے اسلحہ کے اس نے لائسنس بنوا رکھے تھے۔ ہزاروں اہلکاروں اس کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کیلئے تیار رہتے تھے۔ حکومت اور افسران بھی اس بات سے آگاہ تھے۔ اس کی عدالتوں اور الگ ریاست کے قیام سے حکومت بھی لاعلم نہیں تھی۔ اس وقت اس کے پاس ایک نئی گاڑی بھی تھے اور کچھ گھوڑے تھے۔ اسکی عدالتوں کا نظام ٹھیک ٹھاک انداز سے چل رہاتھا چار سال کے طویل عرصہ میں اس کی ریاست سے رشوت کامکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔ امیر کبیر لوگ خود اس کی خدمت کر جاتے اس لئے اس کی ریاست اور عدالتیں کبھی مالی بحران سے دوچار نہیں ہوئیں ۔ اس کی عدالت کے قاضی کا نام عبدالرحمٰن تھا ۔ جو بڑی عرق ریزی اور اسلام کی روشنی میں اپنے جونیئر قاضیوں کے مشورے سے مقدمات کا فیصلہ کیا کرتا تھا۔
وقت نے اچانک انگڑائی لی ملک امیر محمد خان اور صدر ایوب خان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گئے ملک امیر محمد خان نے گورنری سے استعفیٰ دے دیا‘ محمد خان کے مخالف عناصر نے صدر ایوب کو اس کے خلاف بھڑکا دیا اور حکومت کی پوری مشینری اس کے خلاف دوبارہ حرکت میں آ گئی یہاں سے محمد خان کی کہانی ایک نیا رخ اختیار کر گئی۔ وہی درباری افسران جو کل تک اسے جھک کر سلام کرتے تھے اس کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ صدر ایوب خان تک بات پہنچائی گئی کہ محمد خان اسے ملک امیر محمد خان کی ایما پر قتل کرنے کاپروگرام بنا رہا ہے۔ جب محمد خان نے وقت کا تیور دیکھا تو سب کچھ سمیٹ کر رپورش ہو گیا۔ یہ اگست 1966ءکی بات ہے۔
۔۔
صدر ایوب خان نے آئی پولیس کو محمد خان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔ لیکن محمد خان وقت کے تیور دیکھ کر پہلے ہی اپنے سپاہیوں کا حساب بے باق کر کے ملتان جا کر رپوش ہو چکا تھا۔ ابھی اسے ملتان آئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ملک امیر محمد خان اور محمد خان کے مخالف پولیس افسران کو حکم دیا گیا جس طرح بھی ہو محمد خان کو تلاش کر کے گولی سے اڑا دیا جائے۔ اسے بھی اس حکم کا علم ہو گیا وہ اپنی جان بچانے کیلئے بہاولپور چلا گیا اور بال بچوں کو سرگودہا میں ایک رشتہ دار کے ہاں بھیج دیا پولیس کی بھاری نفری اسکی گرفتاری کیلئے تعینات کر دی گئی تھی حتیٰ کہ سپیشل دستے تعینات کر دیئے گئے اب وہ باقاعدہ رو پوش ہو گیا اسے خطرہ تھا کہ اگر وہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو کبھی زندہ نہیں بچے گا پولیس نے اسکے رشتہ داروں اور جان پہچان رکھنے والوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کر دیں جب وہ پولیس کے ہاتھ نہ لگ سکا تو ایک نہایت اعلیٰ خفیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رو پوشی کی حالت میں کسی بھی طرح اسے پکڑ کر مار دیا جائے اور ملک امیر محمد خان کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر کے پابہ زنجیر کر دیا جائے۔ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنچانے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا گیا کہ اس کی ضعیف ماں سے ایک سادہ کاغذ پر انگوٹھا لگوا لیا گیا اس کاغذ پر بعد میں یہ لکھا گیا کہ ملک محمد خان کو ملک امیر محمد خان نے قتل کر دیا ہے اس حلفیہ بیان کی روشنی میں استغاثہ تیار کر کے عدالت کو دے دیا گیا جب محمد خان کو اس کا علم ہوا کہ ملک امیر محمد خان کی زندگی خطرے میں ہے اور حکومت انہیں اسکے قتل کے کیس میں الجھا کر سزا دینا چاہتی ہے تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اس نے 27 جولائی 1967 کو رات کے 9 بجے خفیہ مقام سے مختلف اخبارات اور بی بی سی لندن کو فون کیا اس نے انہیں بتایا کہ کسی نے اسے قتل نہیں کیا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے رو پوش ہے کیونکہ جن پولیس افسران کی نگرانی میں سپیشل پولیس کی گار ڈیں تیار کی گئی وہ سب اس کے جانی دشمن ہیں وہ پولیس مقابلہ کی کہانی گھڑ کے اسے ٹھکانے لگا دیں گے اس لئے وہ گرفتاری پیش نہیں کر رہا اگر غیر جانبدانہ پولیس مقرر کر دی جائے تو وہ خود بخود گرفتاری پیش کرے گا‘ اس کے بعد سید اکبر شاہ انسپکٹر پولیس کو سپیشل گارڈ دے کر محمد خان کی گرفتاری پر مامور کر دیا گیا یہ ایک مخلص نیک کردار اور اچھا انسان تھا۔ محمد خان نے اپنے آدمی کے ذریعے سید اکبر شاہ سے رابطہ کیا اور اس سے معاہدہ طے کیا کہ اسے جان سے نہ مارا جائے تووہ گرفتاری پیش کر دے گا۔ سپیشل پولیس کے انسپکٹر سید اکبرشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر محمد خان اسے گرفتار دے گا تو اپنی جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کرے گا۔
چنا نچہ طے پا گیا کہ محمد خان تھانہ لاوا میں واقع ڈھوک شیر آکر اسے گرفتار کر لے ۔ ایک طرف یہ طے پا چکا تھا تو دوسری طرف پنجاب پولیس اسے جان سے مارنے کیلئے ڈھونڈنے میں مصروف تھی۔ پولیس کا خیال تھا کہ محمد خان پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی وادی سون میں چھپا ہوا ہے۔ صرف وادی سون میں ایس ایس پی عبداللہ خان کی نگرانی میں تین ہزارپولیس اہلکار تعینات تھے۔ خود آئی جی پنجاب پولیس قریشی صاحب ہیلی کاپٹر پر اس آپریشن کی نگرانی کررہے تھے۔ میڈیا پر محمد خان کی خبروں کی دھوم مچی تھی۔ بی بی سی ، وائس آف امریکہ اور وائس آف جرمنی محمد خان پر خصوصی بلیٹن نشر کررہے تھے۔ ملک میں اخبارات کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوچکا تھا۔ لوگ صبح سویرے سویرے محمد خان کی خبروں کی تلاش میں اخبارات خریدتے۔ محمد خان نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انسپکٹر سید اکبرشاہ سے رابط کر کے اپنی گرفتاری کی تاریخ موخر کرنے کو کہا محمد خان کو پتہ تھا کہ اسے پولیس نہیں چھوڑے گی۔ اورپھر یوں گیارہ ماہ تک پولیس نے دن رات ایک کر دیا لیکن محمد خان کو گرفتار کرکے مارنے میں ناکام رہی۔ یہ تمام حالات ستمبر 1966ءسے اگست 1967ءتک کے ہیں۔ گیارہ ماہ تک پولیس اورمحمد خان کی آنکھ مچولی ہوتی رہی اور پولیس سے سامنا ہونے کے باوجود ہر مرتبہ محمد خان بچ نکلنے میں کامیاب ہوا رہا۔ دراصل محمد خان بہروپیے کا روپ دھار چکا تھا۔ جب وہ اپنے علاقے میں ہوتا تو مونچھیں رکھ لیتا جب باہر جاتا تو مونچھیں صاف کرا لیتا۔ عام طور پر شلوار قمیض پہنتا تھا لیکن رو پوشی کے دوران میں پینٹ کورٹ‘ نکٹائی‘ ٹائی اور ہیٹ بھی استعمال کرتا تھا آنکھوں پر مختلف رنگوں کی عینک بھی لگالیتا‘ یعنی کہیں بھی جاتے ہوئے وہ مکمل طور پر اپنا حلیہ بدل لیا کرتا رو پوشی کے دوران 6 ماہ یزمان منڈی میں اس نے ایک اینٹوں کے بھٹے پر پناہ لئے رکھی ایک ماہ ملتان میں ہوٹل کا کمرہ کرایہ پر لے کر رہا تین ماہ میانوالی میں گزارے یہاں اس نے 30 روپے ماہانہ میں ایک مکان کرایہ پر لے رکھا تھا جس کا خاص افراد کو علم تھا‘ اس طرح لیہ میں بھی اپنے قیام کیلئے اس نے ایک جگہ کرایہ پر لے رکھی تھی اور گرفتاری پیش کرنے سے قبل ایک ماہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں گزرا‘ پولیس نے بہاولپور میں چھاپہ مار کر شاہ نواز آف حاصل پور کو گرفتار کر لیا حالانکہ اس سے اسکی کوئی شناسائی نہیں تھی خانیوال سے اسکے چچا بشیر اور ملک جان بیگ کو پکڑ لیا‘ اس کی تلاشی کے دوران ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ محمد خان کہاں رو پوش ہے پھر ان میں سے بعض افراد پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور پولیس نے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا تاکہ اسکا پتہ چلایا جا سکے‘ تھوہا محرم خان کے ڈیرہ پر سو افراد کے مکانوں کو پولیس نے صرف اس لئے آگ لگا دی کہ ان سے محمد خان کے تعلقات تھے لیکن وہ اس کے کسی بھی کام میں شریک نہ تھے پولیس ان کو کہتی کہ محمد خان کو لاکر پیش کر دو بھلا وہ اسے کہاں سے لاکر پیش کرتے اس طرح موضع ڈھرنال میں رہنے والے رشتہ داروں اور عزیزوں کو گرفتار کر کے سخت اذیتیں دی گئیں پولیس نے شک و شبہ میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے لیکن محمد خان کا سراغ نہ پا سکے‘ وہ بعض اوقات ان کے بیچ سے گزر جاتا انہیں بعد میں پتہ چلتا کہ محمد خان دھوکہ دے کر نکل گیا ہے ۔
اسی طرح ایک مرتبہ دندہ شاہ بلاول میں پناہ لئے ہوئے تھاکہ پولیس کو اطلاع مل گئی۔ پولیس کیل کانٹے سے لیس دندہ پہنچ گئی۔ جب محمد خان کو پتا چلا کہ پولیس نے جانے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں اس نے گھر سے سفید ٹوپی والا برقعہ لیا عورتوں کے سینڈل لے کر پاو ¿ں میں ڈالی شلوار اور کرتا پہلے ہی پہنا ہوا تھا پاو ¿ں میں جرابیں تھی ایک مرد بوڑھی عورت اور پانچ سالہ بچی کو ساتھ لیا اور بس پر سوار ہونے کیلئے نکل کھڑا ہوا مر د کو اس کا خاوند ظاہر کیا گیا جب کہ بوڑھی عورت اس کی ساس بنی اور لڑکی بیٹی۔ چنانچہ محمد خان عورت کے بھیس میں ٹھمک ٹھمک چلتا پولیس کے بیچ میں سے گزر کر میانوالی کی لاری پر سوار ہو گیا اورصحیح سلامت نکل جانے میں کامیاب رہا۔
جب ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود پولیس محمد خان کوگرفتار کرنے میں ناکام ہوئی تو اکبرشاہ نے صدر ایوب کو رپورٹ دی کہ اگر مجھے اختیارات دیئے جائیں تو میں محمد خان کو گرفتارکرسکتا ہوں۔ صدرایوب خان نے انسپکٹر اکبر شاہ کو اجازت دے دی کہ وہ محمد خان کو گرفتار کرے۔ انسپکٹر اکبر شاہ نے محمد خان تک اپروچ کی اور اسے گرفتار دینے پر رضا مند کیا ۔ جب اس بات کا علم ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو ہوا تو انہیں بہت برا لگا۔ انہوں نے اکبر شاہ پر پابندی لگا دی اور اسے نظر بند کر دیا۔ انسپکٹر اکبر کے ساتھیوں کو علم تھا کہ یکم اگست 1967ءکو ڈھوک شیرا داخلی لاوہ پر محمد خان نے دوبارہ گرفتاری دینی ہے تو انہوں نے ایس ایس پی عبداللہ اور ڈی آئی جی بنگش کو بتا دیا اور پولیس ہزاروں سپاہیوں کو لے کر یکم اگست 1967ءکو دن گیارہ بجے ڈھوک شیر پہنچ گئی اور اپنی پوزیشنیں سنبھال لیں ڈھوک شیر ایسا علاقہ ہے جہاں چھوٹے چھوٹے نالے‘ کھائیاں اور پہاڑیاں ہیں۔ یکم اگست کو محمد خان ڈھرنال نے اکبر شاہ انسپکٹر سے گرفتاری دینے کا وعدہ کررکھا تھا۔۔۔ لیکن موقع پر الگ الگ پولیس ٹیمیں پہنچ گئیں۔۔ ایس ایس پی عبداللہ نے آتے ہی اسے گرفتاری کو کہا وہ اس وقت دھوتی اور بنیان پہنے ہوئے تھا وہ جب سے رو پوش تھا اس کے پاس ہینڈ گرینڈ‘ تہہ کی جانیوالی رائفل‘ ریوالور اور ڈھیر ساری گولیاں تھی جنہیں وہ ایک صندوق میں بند رکھتا تھا‘ ایس ایس پی عبداللہ نے کہا کہ محمد خان ہاتھ کھڑے کر دو اور خود کو گرفتاری کیلئے پیش کر دو پولیس نے چاروں طرف سے تمہیں گھیر لیا ہے اب تم کسی صورت نہیں بچ سکتے‘ اس نے جواب میں کہا کہ اس وقت بالکل خالی ہاتھ ہوں اکبر شاہ کو بھیجو کہ مجھے گرفتار کر لے یہ سنتے ہی ایس پی عبداللہ نے فائر کھول دیا وہ اس وقت بالکل نہتا تھا پہلی گولی اس کی چھاتی میں لگی اس نے بھاگ کر بیٹھک سے تہہ بند لیا جہاں گولی لگی وہاں باندھا گھنی جھاڑیوں کے درمیان گہری کھائی میں جا چھپا پولیس نے چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھاتھا اورفائرنگ کر رہی تھی حتیٰ کہ شام کے ساڑھے پانچ بج گئے۔ پولیس اس کے قریب جانے سے خوفزدہ تھی۔ جب پولیس کو پتہ چلا کہ محمد خان کسی صورت گرفتاری نہیں دے گا تو مجبوراً انسپکٹر اکبر شاہ کو بلایا گیا انسپکٹر اکبر شاہ نے تمام اہلکاروں کو افسران سے وعدہ لیا کہ محمد خان کو گولی نہیں ماری جائے گی جب تمام طرف سے تسلی ہوئی تو آگے بڑھ کر گہری کھائیوں میں اتر گیا اور اسے آواز دی محمد خان میں اکبر شاہ ہوں تو محمد خان ڈھرنال نے خود کو اس کے حوالے کر دیا اتنے وقت میں اس کا بہت سا خون ضائع ہو چکا تھا ۔ اسی وقت وائرلیس پر صدر ایوب کو محمد خان کی گرفتاری کی اطلاع دی گئی اور انہیں اس کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا صدر ایوب نے اس وقت حکم دیا کہ اسے بلاتا خیرملٹری ہسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا جائے چنانچہ رات کے دس بجے کے قریب اسے پنڈی ملٹری ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا جہاں اس کا آپریشن ہوا گولی نکالی گئی اور اٹھارہ دن تک وہ یہاں زیر علاج رہا۔ اس دوران پولیس کی بھاری نفری وہاں تعینات تھی۔
محمد خان کی گرفتاری کے بعد میڈیا پر شور مچ گیا۔۔ میڈیا نے اسے بڑے عجیب و غریب القابات دینا شروع کردیئے۔ کسی نے قاتل کہا کسی نے ڈاکو کہا۔ بے سروپا باتیںاورواقعات اس سے منسوب ہونے لگے۔ اس سے وہ وارداتیں بھی منسلک کر دی گئیں جن کا اسے پتہ تک نہیں تھا یکطرفہ میڈیا پر اس کے خلاف پروپیگنڈہ جاری تھا۔۔ ہسپتال سے فار غ ہوتے ہی اسے شاہی قلعہ لاہورمنتقل کر دیاگیا۔ جہاں اے آئی جی کرائم برانچ کے عبدالوکیل خان نے اس سے تفتیش کا آغازکیا۔ چھ ماہ تک اس سے تفتیش ہوتی رہی۔ اسے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کررکھا گیا۔ حکومت کاسارا زور اس بات پرتھاکہ امیر محمد خان صدر ایوب کو محمد خان کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا۔ یہ بات غلط تھی اس بیان کی روشنی میں حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو الجھانا چاہتی تھی انہوں نے اس سے یہ بیان حاصل کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا دفتروں کے دفتر دیکھے گئے کہیں سے بھی محمد خان اور امیر محمد خان کی ملاقات کا ریکارڈ حاصل نہ کیا جاسکا اس نے بھی حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے ہر وار اپنی جان پر سہہ لیا لیکن وعدہ معاف گوا ہ بن کر اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا پولیس نے اس کے ڈیرے کا مال و متاع لوٹ لیا، گھروں کو آگ لگا دی اس کی پانچ مربعہ اراضی بحق سرکار ضبط کر کے نیلام کر دی گئی شاہی قلعہ میں اسے کڑے پہرے میں رکھاگیا‘ 6 ماہ بعد اسے گوجرانوالہ جیل منتقل کر دیا گیا وہاں اسے پھانسی کی کوٹھڑی میں رکھا گیا حالانکہ ابھی اسے کسی مقدمہ میں سزا نہیں ہوئی تھی یہاں بھی اتنے سخت حفاظتی انتظامات تھے کہ پھانسی کی کوٹھڑی کے اوپردائیں بائیں اور آمنے سامنے مسلح سپاہی تعینات تھے حتیٰ کہ پھانسی کوٹھڑی کے اندر بھی اس کے ہاتھوں کو ہتھکڑیاں لگائی جاتیں پاو ¿ں میں بیڑیاں اور ایک موٹا سنگل ہتھکڑی کے ساتھ باند ھ کر پھانسی کوٹھڑی کے لوہے کے دروازے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا کھاناکھانے اور وضو کرنے کیلئے بھی اسکی ہتھکڑیاں نہیں کھولی جاتی تھیں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل خود آکر صرف ایک ہاتھ کی ہتھکڑی کھولتا اسی حالت میں وضو کر کے نماز پڑھتا اور کھانا کھاتا تھا‘ جیل میں قتل کے 19 اور 5 زخمیوں کے کیس کی سماعت شروع ہوئی اس کیلئے حکومت نے جج مظہرالحق اور سپیشل مجسٹریٹ اعجاز احمد چیمہ پر مشتمل خصوصی پینل تشکیل دیا 8 ماہ تک سماعت جاری رہی بالآخر 12 ستمبر 1968ء کو محمد خان ڈھرنال کو 4 بار سزائے موت اور 149 سال قید مشقت کی سزا سنادی گئی‘ اس نے کم و بیش 12 سال اسی حالت میں پھانسی کوٹھڑی میں گزارے اس مقدمہ میں نہ وکیل کی اجازت تھی اور نہ ہی وہ کسی سے مل سکتا تھا مکمل طور پر اسے قید تنہائی میں رکھا گیا اسے اتنی ذہنی اذیتیں دی گئیں کو کوئی اورہوتا تو پاگل ہو گیا ہوتا‘ اس فیصلے کے خلاف اسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔
سیشن کورٹ نے محمد خان کو قتل کے جرم میں چار مرتبہ سزائے موت سنائی۔اس کے بھائی نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی کہ ہمیں اپیل کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا۔ ہائی کورٹ نے پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرلی اور محمد خان کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق مل گیا لیکن یہاں بھی اس اسے پیش ہونے سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔
محمد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اسے تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دی جاے?۔ دودفعہ اس کی درخواست نامنظور کردی گی۔ بالاخر اک ڈویژن بنچ نے جس میں جسٹس مشتاق حسین بھی شامل تھے ، نے اسے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دے دی کہ اک آدمی جسے چار مرتبہ سزائے موت سنائی گئی ہو اس کی حسرت کو پورا کیا جائے۔
محمد خان کی تفتیشی افسر پر ہونے والی جرح کو سننے و دیکھنے کے لیے لوگوں کا مجمع عدالت میں جمع ہوگیا۔
محمد خان درمیانے قد کا مضبوط قد کاٹھ کا حامل شخص تھا۔خوبصور ت بھاری بھرکم چہرہ، سفیدی بہ مائل گھنی مونچھیں اور ذہین و مسحور کردینے والی آنکھیں۔عدالت میں نہایت ادب و احترام اور خوداعتمادی سے آیا، اور نہایت اطمینان سے تفتیشی ڈی ایس پی پر جرح کرنے لگا۔کہ تفتیشی افسر کو مجھ سے ذاتی انا ہے اور جرح میں ثابت کردیاکہ تفتیشی ڈی ایس پی نے عدالت کو ساری من گھڑت کہانی سنائی ہے ۔ بہر حال محمد خان عدالت سے سلام کے بعد اجازت لینے کے بعد یہ کہتا ہوا نکلا کہ میری تقدیر میں جولکھا ہے وہ ضرور دیکھوں گا لیکن مجھے اطمینان ہے کہ عدالت نے مجھے سنا۔
اس جرح کے بعد ہائی کورٹ نے محمد خان کو دو سزائے موت کی سزا سے بر ی کردیا جبکہ دو میں سزا برقرار رکھی۔
۔۔
سے موت کی سزامیں بار پھانسی کی تاریخ مقرر ہوئی لیکن وہ اپنی تقدیر سے لڑ کر آزاد ہوا ۔ بالآخر فیصلہ ہواکہ اسے 8 جنوری1976ءکو تختہ دارپرلٹکا دیاجائے گا۔ اس کے چھوٹے بھائی فتح شیر نے6 جنوری کوہائی کورٹ میں اپیل کردی۔ وہ اس وقت اٹک جیل میں تھا اس مرتبہ اس کے بچنے کے کوئی امکانات نہیںتھے۔ صبح چار بجے اسے تختہ دار پر لٹکانے کے تمام انتظامات مکمل تھے۔ اسے پتہ تھاکہ صبح اسے پھانسی دے دی جائےگی۔ لیکن اس کا دل مطمئن تھا سارا دن دوسرے قیدی اس کے پاس آتے رہے اور الوداعی ملاقات کرتے رہے۔ وہ بے خوف و خطر پھانسی سیل میں بیٹھا رہا معمول کے مطابق اس نے روٹی کھائی‘ چائے پی اور ملنے والوں سے گپیں ہانکتارہا حتیٰ کہ رات کو گہری نیند سویا جیل حکام کو مصیبت پڑی ہوئی تھی وہ پھانسی گھر میں خصوصی انتظامات کرنے میں لگے ہوئے تھے اور جیل کے باہر بھی غیر معمولی انتظامات تھے‘ پھانسی دینے والے جلاد کو بھی بلا لیا گیا تھا محمد خان نے معمول کے مطابق عشاءکی نماز اداکی اور اطمینان کی نیندسوگیا۔ رات کے گیارہ بجے کے بعد پھانسی پانے سے صرف 5 گھنٹے قبل ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم مل گیا اسے جگا کر اس فیصلے سے آگاہ کیا گیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اوراٹھا شکرانے کے نوافل ادا کئے اور پھر گہری نیند سوگیا۔ 6 جنوری 1976ءکو اس کے بھائی نے ہائی کورٹ میں جو اپیل دائر کر دی تھی وہ منظور ہو گئی اور اس کی سزاپر عملدرآمد روک دیا گیا۔ اس کا کیس دوبارہ ہائی کو رٹ میںسنا گیا اور 1978ءمیں اس کی سزائے موت کو عمر قیدمیں تبدیل کر دیا گیا ۔ محمد خان 22 برس کی سزا کاٹنے کے بعد بالآخر 1989ءمیں بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدارتی آڈیننس کے تحت 60 سال سے زائد عمر قیدیوں کی سزا کی معافی کے تحت آزاد ہوگیا۔ رہائی کے وقت اس نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میری تمام رقابتیں، رنجشیں اور دشمنیاں ختم ہو چکی ہیں۔ رہا ہو کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ انسانیت دکھاﺅں گا۔ محمد خان بہت اچھا مقرر بھی تھا وہ رہائی کے بعد بینظیر بھٹو کی موجودگی میں جلسوں سے خطاب بھی کرتا تھا۔ بالآخر تلہ گنگ کی تاریخ کا یہ طلسماتی کردار 29 ستمبر 1995 کو طبعی موت مرا۔ اسے آبائی گاﺅں ڈھوک مصائب تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال میں دفن کیا گیا۔
آخری بات:
اور یوں ایک بہادری اور دلیری کی داستان کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔ محمد خان ڈھرنال اور ہاشم خان دونوں انتہائی دلیر اوربہادر جوان تھے۔۔۔ تلہ گنگ پہلے ضلع اٹک کا حصہ ہوا کرتا تھا اور ہمارے علاقے میں پیر آف مکھڈ کی سیاسی اجارہ داری تھی۔۔۔ پاکستان بننے کے بعد تلہ گنگ کی ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹیں ہمیشہ پیر آف مکھڈ جیتا کرتے تھے۔۔۔۔ اور یہ دونوں جوان پیر آف مکھڈ کے سیاسی نظریے کے مخالف تھے۔۔۔۔ انہیں صرف اور صرف پیر آف مکھڈ کی سیاسی مخالفت کی بنا پر عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔۔ محمد خان ڈھرنال نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی ڈاکہ مارا نہ ڈاکے کا کوئی کیس اس کے خلاف درج تھا۔۔۔ مفروری کے دوران اور بعد ازاں جب اس نے عدالتیں لگانا شروع کیں تو غریب لوگ اس کے ہمنوا بن گئے۔۔۔ اور غریبوں کا حقیقی ساتھی اورمسیحا تھا جبکہ ظالموں کے خلاف ہمیشہ برسر پیکار رہا۔۔۔
محمد خان ڈھرنال نے ابھی جوانی میں قدم ہی رکھا تھا کہ اسے مختلف مقدمات میں الجھا دیا گیا۔۔۔ اپنی ساری زندگی وہ انصاف کی تلاش میں رہا۔۔۔ زندگی کا زیادہ وقت مفروری اور جیل میں گزارا۔۔۔ انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک محمد خان ڈھرنال میری ذاتی رائے کے مطابق سیاسی انتقام کا نشانہ بنا نہ تو وہ ڈاکو تھا اور ہی ظالم و جابر تھا۔۔۔۔ وہ غریب لوگوں کا ایک حقیقی مسیحا تھا۔۔۔ اور یہی سچ ہے۔۔
۔۔۔
ماخذ:
-1 محمد خان کا طویل انٹرویو جو فدا الرحمان نے روزنامہ خبریں کیلئے لیا تھا۔ (روزنامہ خبریں اسلام آباد)
-2 ممتاز ناول نگار خلش ہمدانی مرحوم کی کتاب ” محمد خان ڈھرنال کی سوانح حیات“ (جو اب نا یاب ہے)