ماہ صیام کی آمد پر خصوصی تحریر: رمضان ، آدمی کو انسان بنانے کا مہینہ
رمضان المبارک کا متبرک اور مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ لفظ رمضان میں ۵ الفاظ ہیں۔ ر م ض ا ن۔ رکا مطلب ہے رضائے الٰہی، یعنی اس ماہ میں اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لیے اس کی مرضی کے مطابق اپنے شب و روز گذارنا۔ م اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ مغفرت کا مہینہ ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی مغفرت کرا کے نارِ دوزخ سے نجات حاصل کر لے۔ ض اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر بندہ اپنے رب کی ہدایت کے مطابق رمضان کے روزے رکھے تو اس کے لیے مغفرت کی ضمانت ہے۔ ا لف اور نون اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ اس ماہ میں اللہ رب العزت اپنے روزہ دار بندوں کی اجابت فرماتا ہے،اس کی دعائیں سنتا ہے اور اس کی مغفرت فرما کر اسے نارِ جہنم سے نجات دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے کی قوموں پر فرض کیے گئے تھے‘‘۔ دوسری جگہ ارشادِ باری ہے : ’’رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن عظیم الشان نازل کیا گیا۔ اس مبارک مہینے کے سلسلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ وہ مہینہ ہے جس کی ایک رات ہزار راتوں سے بہتر اور افضل ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ماہ میں دن میں روزہ کو فرض اور راتوں میں قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ جس نے اس ماہ میں ایک فرض ادا کیا اس نے دوسرے مہینے کے گویا ۷۰ فرائض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ غمخواری کا بھی مہینہ ہے۔ اس ماہ میں مومن کا رزق کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس نے اس ماہ میں روزہ دار کو افطار کرایا۔ اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کی خوشخبری ہے ،اسے روزہ دار کے مثل اجر و ثواب ملے گا۔ لیکن روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ہے۔ جس نے اس ماہ مبارک کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے غلام یا خادم کے کاموں میں تخفیف کر دی، اللہ اسے بخش دے گا ا ور اسے دوزخ سے نجات عطا فرمائے گا۔ روزہ کے سلسلے میں اللہ کا فرمان ہے کہ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ روزہ رکھنے سے دل کے اندر نرمی اور شگفتگی آتی ہے۔ اس طرح ،روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کر سکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزے کی پُرمشقت تربیت، آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گذاری میں اس کا دل تڑپے اور خوفِ خدا سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر ادا کرے، جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ وہ اللہ کو ایک ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہو گیا ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن بندے کے لیے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اس بندے کو دن میں کھانے پینے اور دیگر نفسیاتی خواہشات کی تکمیل سے روکا۔ اس لیے اس کے سلسلے میں میری شفاعت قبول فرما۔ قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کو سونے سے روکا۔ اس لیے اس کے سلسلے میں میری شفاعت کو قبول فرما۔ اللہ رب العزت دونوں کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے۔ رمضان کی دوسری اہم چیز قیام لیل ہے۔ یہ دراصل نماز تراویح ہے۔ اس کی بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور اسی لیے تراویح بلا اختلاف زمان ومکان امت مسلمہ کا عمل رہا ہے۔
اس ماہ مبارک کے دیگر اوقات میں بھی تلاوت قرآن پاک کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک مہینے میں کثرت سے تلاوت کیا کرتے تھے۔ حضرت جبرئیل امین کے ساتھ دور کیا کرتے تھے۔ کبھی جبرئیل امین قرآن کی تلاوت کرتے تو رسول اکرمؐ سنتے اور کبھی رسول اکرمؐ قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو حضرت جبرئیل امین سنا کرتے تھے۔ جس سال آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا، اس سال کے رمضان میں آپﷺ نے حضرت جبرئیل امین کے ساتھ دو بار دور فرمایا۔ اس مہینے میں صدقہ و خیرات کی بھی کافی اہمیت ہے۔ خود نبی آخر الزماں ﷺ جو عام دنوں میں بھی ہمیشہ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے، رمضان میں کثرت کے ساتھ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے۔ رمضان میں جس طرح کھلی ہوا روکے نہیں رکتی، اسی طرح آپﷺ کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں رکتی تھی۔ ہاتھ آتے ہی آپ ﷺ صدقہ فرما دیا کرتے تھے۔ رمضان کے مہینے میں صدقہ و فطر کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اسے عید سے پہلے ادا کر دینے اور مستحقین تک پہنچا دینے کا حکم ہے۔ جب تک صدقہ فطر ادا نہیں ہوتا ہے روزہ دار کے روزے معلق رہتے ہیں اور اللہ انھیں قبول نہیں فرماتا ہے۔رمضان میں صدقہ و خیرات اس لیے بھی زیادہ کرنا چاہیے کیوں کہ اس ماہ میں ہر عمل کا ثواب ۷۰ گنا بڑھ جاتا ہے۔ عام دنوں میں اگر ایک روپیہ صدقہ کیا گیا تو وہ ایک روپیہ کے برابر ہی ہوگا۔ مگر رمضان میں اس کا اجر ۷۰ گنا زیادہ ہوگا۔یعنی ۷۰ روپے ادا کرنے کے برابر اجر و ثواب ملے گا۔
رمضان میں ایک شب ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اس رات کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ اس رات میں ساری رات اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے اور تمام اہم امور کو انجام دینے کے لیے اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل امین اُترتے رہتے ہیں۔ اس رات کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ اسے رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں یعنی ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ کی راتوں میں تلاش کرو۔ جو لوگ اس ہر حال میں حاصل کرنا اور اس کے فوائد سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہیں وہ رمضان کے آخری عشرہ میں مساجد میں اعتکاف کرتے ہیں۔ اور سوائے حوائج بشریہ کے کسی بھی دنیاوی کام کے لیے مسجد سے باہر قدم نہیں رکھتے اور شب و روز کے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوت قرآن پاک، نفل نمازوں اور تسبیح و تحلیل میں وقت گذارتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آنے یا رویت کی تصدیق ہونے کے بعد ہی مسجد سے باہر نکلتے ہیں۔
رمضان المبارک کو اچھے انداز میں گذارنے کے لیے علمائے کرام نے جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے ان پر بھی ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ روزہ کو لوگ عام طور پر اُپواس اور فاقہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ روزہ دراصل اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گذارنے کا نام ہے۔ ورنہ صرف بھوکے پیاسے رہنے سے اللہ کو کوئی مطلب نہیں اور بندے کو بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ رمضان کے دوران ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور دنیاوی مشغولیات اور لہو و لعب سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل ہو سکیں۔ انسان کو زبان، منہ، آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں ہر چیز کا روزہ رکھنا چاہیے۔ یعنی اسے روزہ یا رمضان کے دوران اپنی زبان اور منہ سے بھی کوئی غلط یا ناپسندیدہ بات نہیں نکالنی چاہیے۔ کان سے کوئی غلط بات نہیں سننی چاہیے اور آنکھوں سے کوئی غلط چیزنہیں دیکھنی چاہیے۔ ہاتھ سے کوئی غلط کام نہیں کرنا چاہیے اور اپنے قدم کسی غلط راستے پر نہیں بڑھانا چاہیے۔ جب انسان ایک ماہ تک لگاتار اس طرح کی پابند زندگی گذارے گا تو ایک ماہ کی ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد اس کا مزاج ایسا بن جائے گا کہ نہ وہ غلط سوچے گا، نہ غلط کرے گا، نہ غلط سنے گا اور نہ ہی کسی غلط بات کی حمایت کرے گا۔ اس طرح وہ ایک مثالی انسان بن جائے گا۔ جو نہ صرف اپنے گھر، خاندان اور معاشرہ بلکہ اپنی ریاست اور ملک کے لیے ایک اچھا اور قابل تقلید انسان بن جائے گا۔
روزہ کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو مثالی بنایا جائے۔ اس کے دلوں کی کدورتوں کو دور کر کے اسے عام انسانوں کے لیے مفید بنایا جائے۔ اس میں درد دل پیدا کیا جائے۔ ایک انسان جب روزہ رکھتا ہے، بھوک اور پیاس کی صعوبت برداشت کرتا ہے، تو اسے بھوکے اور پیاسے کا درد معلوم ہوتا ہے کہ ایک بھوکا اور پیاسا انسان کیسا محسوس کرتا ہے۔ تب وہ کسی کو بھوکا یا پیاسا نہیں رہنے دے گا اور اپنی بساط کے مطابق اس کی بھوک اور پیاس دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آسودہ ہیں تو ساری دنیا آسودہ ہے۔ وہ مطمئن ہیں تو ساری دنیا مطمئن ہے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اس لیے مذہب اسلام نے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ اپنے ساتھ اپنے آس پاس کے لوگوں کی بھی فکر کرو، تم خود کھاؤ تو دوسروں کو بھی کھلانے کی کوشش کرو۔ تہوار یا کوئی جشن منا رہے ہو تو اس سے پہلے اپنے آس پاس کے غریبوں کی بھی خبر لو اور انھیں بھی خوشی منانے کا موقع فراہم کرو۔ رمضان میں صدقہ و فطر اور عید سے پہلے اس کی ادائیگی کے پیچھے یہی مصلحت کارفرما ہے کہ غریب بھی آپ کے ساتھ بہتر زندگی گذار سکیں اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں۔
ٹریننگ کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب پوری سنجیدگی کے ساتھ ٹریننگ میں حصہ لیا جائے۔ اگر اللہ کی مرضی کے مطابق کوئی انسان رمضان کا مہینہ گذار لے گا تو ایک ماہ کے بعد وہ اپنے اندر نمایاں تبدیلی محسوس کرے گا اور اپنے اندر ایک نئی قسم کی توانائی محسوس کرے گا۔ جو اسے سال کے باقی دنوں میں بھی توانائی مہیا کراتا رہے گا اور اسے اعمال صالحہ پر آمادہ کرتا رہے گا۔ جب توانائی کم پڑنے لگے گی تو ایک بار پھر رمضان المبارک ہم پر جلوہ فگن ہوگا اور اسی طرح ہماری زندگی سنوارنے میں اور ہمیں مثالی قابل تقلید بنانے کا عمل تا حیات جاری رہے گا۔