بیربل " بادشاہ اکبر اور چھے بے وقوف"


شہنشاہ اکبر بیربل کی ذہانت کا معترف تھا۔بیربل نے شہنشاہ اکبر کے ساتھ تقریباََ تیس سال تک کام کیااور ان تیس سالوں میں اس نے اکبر اعظم کے دل و جاں میں گھر کر لیا۔ بیربل جسکا اصل نام مہیش داس تھااکبر اعظم کے نو رتن (شیخ مبارک، شیخ فیضی،عبدل فضل،ملا عبدالقادر بدایونی، راجہ ٹو ڈرمل،عبدالرحیم خان خانا،مہاراجہ مان سنگھ،تان سین)میں سے بڑا ذہین اور چالاک تھا۔ اکبر بادشاہ اسکی حاضر دماغی سے خوش تھا۔ باد شاہ اکبر بیربل کو کسی نہ کسی امتحان میں ڈالے رکھتا تھا۔ایک دن بادشاہ کو خیال ہوا کہ میں سلطنت کے عقلمند انسانوں سے تو ملتا رہتا ہوں کیوں نہ بیوقوف انسانوں سے بھی مل لیا جائے۔ بادشاہ نے اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے بیربل کو حاضرِ دربار کیااور کہا کہ وہ سلطنت کے چھ بیوقوفوں سے ملنے کا مشتاق ہے۔اکبر نے بیربل کو حکم دیا کہ جاؤ اور شام تک چھ بیوقوفوں کو دربار میں پیش کیا جائے۔

بیربل: حضور والا میں حتمی الامکان کوشش کروں گاکہ آپکی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکوں۔ بیربل شہر کی گلیوں میں بے وقوفوں کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا۔ اچانک اسکی نظر ایک آدمی پہ پڑی جوتالاب میں لیٹا ہوا تھا اور ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھا۔
بیربل : بھلے آدمی تم کیا چاہ رہے ہو۔؟؟؟
آدمی: میں اٹھنا چاہ رہا ہوں۔ میں اپنی بیوی کے لئے کپڑ ا خریدنے جا رہا تھا اور غلطی سے اس تالاب میں گر گیا۔
بیربل: تم اپنے ہاتھوں کا سہارا کیوں نہیں لے رہے؟؟؟
آدمی : حضور میں نے اپنا ہاتھ ناپا ہوا ہے جتنا کپڑا میری بیوی کو چاہیے۔ اگر میں اپنا ہاتھ پانی میں ڈال دوں گا تو ناپ کیا باقی رہ جائے گاپھر میں اپنی بیوی کے لئے کپڑا کیسے لوں گا۔ تالاب میں لیٹے آدمی نے جواب دیا۔
بیربل: اچھا تو میں تمھاری مدد کرتا ہوںیہ کہہ کر بیربل نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اسے تالاب سے نکال لیا اور اسے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو اور کوئی سوال نہیں۔ آدمی راضی ہو کر بیربل کے ساتھ ہو لیا۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ انکا سامناایک آدمی سے ہوا جو گھوڑے پہ سوار تھااور سوکھی گھاس کا گٹھڑااپنے سر پہ رکھے ہوئے تھا۔
بیربل نے اسے دیکھ کر کہا! ارے میاں تم اس گھاس کو گھوڑے کی زین پہ کیوں نہیں باندھ لیتے؟؟؟
اس گھڑ سوار نے جواب دیا جناب میں گھوڑا کمزور اور دبلا ہے اتنا وزن نہیں اٹھا سکتا۔بیربل نے اسکا جواب سن کر کہا واہ رے نصیب ارے یار مجھے تمھاری ہی تلاش تھی۔تم بھی چلو میرے ساتھ اور کوئی سوال نہیں۔ وہ شخص بھی انکے ہمراہ ہو لیا۔ ابھی یہ تینوں تھوڑا آگے گئے تو ایک شخص پہ نظر پڑی جواکیلے باتیں کرتا ہوا بھاگتا جا رہا تھا،
بیربل: ارے میاں کہاں بھاگے جا رہے ہو ذرا دیکھ کے اور سنبھل کر چلو۔
آدمی: جناب میں تو اپنی آوازکو پکڑنے کے لئے اسکے پیچھے بھاگ رہا تھا اور راستے میں تم لوگ آ گئے، بیربل نے کہا تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔وہ بھی راضی ہو گیا۔اب اندھیرا ہو چکا تھا۔ بیربل کے پیچھے تین تین بے وقوف آ رہے تھے۔ جب بیربل ان تینوں کے ساتھ شاہی محل کے قریب پہنچا تو اسکی نظر ایک آدمی پہ پڑی جو اپنے آپ کو جھکائے ہوئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
بیربل: ارے میاں کیا ڈھونڈ رہے ہو؟؟؟آدمی: ارے بھائی ! میری سونے کی انگوٹھی محل کے اس پار گم ہو گئی ہے۔
بیربل:تم اپنی انگوٹھی وہاں کیوں نہیں ڈھونڈتے جہاں گم ہوئی تھی؟؟؟
آدمی: جناب ! جہاں انگوٹھی گری تھی وہاں پر اندھیرا ہے،جہاں روشنی ہو گی وہیں ڈھونڈوں گا ناں۔بیربل نے اس کو بھی انگوٹھی دینے کا لالچ دیا اور اسے بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ وہ بھی راضی ہو گیا ۔ اب ب یربل ان چاروں بے وقوفوں کو لیکر اکبر اعظم کے دربار میں حاضر ہو گیا اور عرض کی۔
حضور کا اقبال بلند ہو ۔۔۔۔ بادشاہ سلامت کی خواہش کے مطابق بے وقوف اشخاص دربار میں حاضر ہیں۔
اکبر اعظم: بیربل تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ احمق ترین ہیں؟
بیربل نے عرض کی: حضور انکی حرکتوں کی وجہ سے بھانپا ہے کہ یہ احمق ہیں اور پھر بیربل نے بادشاہ سلامت کوانکی احمقانہ حرکتوں کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ اکبراعظم نے تفصیل سننے کے بعد کہا کہ میں نے تو چھ بے وقوفوں سے ملاقات کا کہا تھا مگر تم چار لیکر آ گئے ہو۔بیربل نے عرض کی جی حضور چار ہی لیکر آیا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ باقی دو کہاں ہیں؟؟
بیربل نے کہا کہ اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ؟؟؟
اکبر اعظم نے کہا اجازت ہے۔
بیربل نے عرض کی حضور چار بے وقوف یہ ہیں اور جو باقی دو بچتے ہیں ان میں سے ایک آپ ہیں اور ایک میں۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ اسطرح کہ آپ نے احمقانہ خواہش پیش کی اور میں نے اس احمقانہ خواہش کو پورا کرنے کی حامی بھر لی۔
شہنشاہ اکبر بیربل کے جواب سے لاجواب ہو گیا اور اس کی حاضر دماغی پر داد دی