وعدہ کرو تو ہمایوں کیطرح نبھاؤ

''وعدہ کرو تو ہمایوں کیطرح نبھاؤ''
🔮ایک معمولی سقے کو حسب وعدہ ہندوستان کے تخت پر بٹھایا گیا۔
🔮یہ تاریخ کا انوکھا اور مشکل ترین وعدہ تھا جسے مغل شہنشاہ نے پورا کیا۔
🔮شہزادوں اور درباریوں نے جھک کر آداب کہا۔احکامات کی تعمیل کی۔
🔮بادشاہ نے فرمایا اگر نظام سقہ میری جان نہ بچاتا تو نہ میں بادشاہ ہوتا نہ مغل سلطنت۔
🔮آج بھی لوگ ایسے حکمران چاہتے ہیں جو مغل بادشاہوں کیطرح اپنے عہد کی پاسداری کریں۔
وعدہ نبھانے والا بادشاہ !
شیر شاہ سوری ایک معمولی افغان سردار تھا ۔بابرؒ بادشاہ نے افغانوں کی تالیف قلب کیلئے اس نوجوان کو فوج میں بھرتی کرلیا ۔لیکن ہمایوں بادشاہ جب ایک جنگی مہم پر دورافتادہ علاقے میں مقیم تھے تو شیر شاہ نے بے وفائی کی ۔مقامی سرداروں کو ساتھ ملا کر بادشاہ کیخلاف بغاوت کردی او ر بہار اور بنگال میں سوری سلطنت کا پرچم لہرا دیا ۔
بادشاہ نصیرالدین ہمایوں نے اپنے والد بابرؒ سے کئے ہوئے عہد کے مطابق اپنے چھوٹے بھائیوں کو ہمیشہ معاف کیا تھا۔ لیکن بھائیوں نے شیر شاہ کے مقابلے میں اپنے بڑے بھائی کا ساتھ نہ دیا۔ہمایوں بادشاہ تنہا ہوگئے تھے ۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موقع پرست شیر شاہ نے مغل سُلطنت پر قبضہ کرلیا ۔ دوبارہ سلطنت پانے کیلئے مغل فوج اور شیر شاہ کی افواج کے مابین کئی معرکے بپا ہوئے ۔ایسے ہی ایک معرکے میں ہمایوں بادشاہ کا ایک بازو زخمی ہوگیا۔وفاداروں نے تدبیر لڑائی اور بادشاہ کو چند سواروں کے ہمراہ میدان جنگ سے نکال کر دور لے گئے ۔ لیکن دشمن مسلسل تعاقب کررہاتھا ۔ محفوظ مقام کی تلاش میں ایک موقعہ ایسا آیا کہ آگے چوڑے پاٹ والا گہرا دریا تھا اور پیچھے انعام کے لالچ میں شیر شاہ کی فوج تھی ۔بادشاہ کے زخمی بازو سے خون بہہ رہا تھا،لباس پھٹ چکا تھا اور توشہ دان خالی تھا ۔بچے کھچے محافظ مارے جا چکے تھے اور جو ساتھ تھے ان کے گھوڑے نڈھال ہوکر گررہے تھے ۔ ہمایوں بادشاہ نے لمحہ بھر کیلئے اپنے عقب میں آتے دیکھا اور دشمن کے ہاتھو ں گرفتار ہونے کی بجائے الللہ اکبر کہ کر اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا ۔پانی گہرا تھا ،گھوڑا زیادہ دیر دور نہ جاسکا اور تھک کر گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ ہمایوں بادشاہ کو جب کوئی راستہ دکھائی نہ دیا توانہون نے اونچی آوازمیں مدد کیلئے پکارنا شروع کردیا کہ شائد کوئی قریب ہو اور وہ مدد کردے ۔
خدا کی شان دیکھئے کہ دریا کے دوسرے کنارے پر ایک سقہ پانی بھر رہا تھا ۔اس نے مشکل میں گھرے شخص کی پُکا ر سنی تو اپنا چرمی مشکیزہ خالی کیا اور اس میں ہوا بھر کر دریا میں کود گیا ۔ اس نے کمال مہارت کیساتھ زخمی بادشاہ کو دریا سے نکال لیا تھا ۔
درد سے کراہتے ہوئے ہمایوں نے سقّے سے پوچھا ’’تمہارا نام کیا ہے ‘‘
’’نظام ‘‘ سقّے نے سر سری سا جواب دیا۔
’’میں ہمایوں ۔۔ہندوستان کا بادشاہ ۔میں جب دوبارہ بادشاہ بنوں گا تجھے ایک دن کیلے تخت پر بٹھاؤں گا ‘‘ہمایوں بادشاہ نے اپنے محسن سے وعدہ کیا۔
وقت بدل گیا اور ہمایوں بادشاہ نے سات سال کے بعد دوبارہ فوج جمع کی اور سوری سلطنت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کردیا ۔نظام سقّہ بادشاہ کے وعدے کو نہیں بھولا تھا ۔اسے ملاحوں سے خبر ملی کہ ہمایوں بادشاہ دوبارہ تخت نشین ہوچکے ہیں ۔وہ دارلحکومت دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ کئی روز کی مسافت کے بعد وہ شاہی دربار میں پہنچ گیا ۔ اس نے محافظوں کو بتایا کہ وہ شہنشاہ کو ایک وعدہ یاد دلانے آیا ہے ۔اسے بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا ۔
’’فریادی بتاؤ کیاچاہتے ہو‘‘ شہنشاہ ہندوستان نے پوچھا۔
’’میں نظام سقّہ ہوں ،وہی سقّہ جس نے جہاں پناہ کی جان بچائی تھی ۔میں تخت پر بیٹھنے کیلئے آیا ہوں ‘‘
بادشاہ نے سقّے کو تھوڑا قریب آنے کا حکم دیا ۔قریب آتے ہی بادشاہ نے اپنے محسن کو پہچان لیا ۔حکم دیا کہ اسے شاہی لباس پہنیایا جائے اور ایک دن کیلئے تخت نشین کیا جائے ۔درباریوں نے عرض کی کہ یہ مغل تخت وتاج کی توہین ہے کہ ایک معمولی سے سقّے کو یہ مرتبہ عطا کی جائے ۔ایسا کرنے سے رعایا میں شاہی دربار کا رعب ختم ہوجائے گا ۔اس سے بہتر ہے کہ اس کے احسان کے بدلے اس کو منہ مانگا انعام دے کر فارغ کردیاجائے ۔ اس پر دربار میں ہی نہیں حرم میں بھی بہت بحث ہوئی ۔
’’اگر یہ سقّہ اس روز میری جان نہ بچاتا تو نہ یہ سُلطنت ہوتی نہ آپ ہوتے اور نہ میں بادشاہ ہوتا ۔حکم کی تعمیل ہو‘‘
سقّے کو بادشاہ کا لباس پہنا کر تخت نشین کیا گیا ۔درباری اور شہزادے جھک کر کورنش بجا لائے ۔سقّے نے پورا ایک دن ہندوستان پر حکومت کی ۔جب وہ واپس جانے لگا تو اسے بادشاہ سلامت نے انعام واکرام سے خوب نوازا۔اور اسے بحافظت اس کے گاؤں پہنچایا گیا ۔اس دن سے ہندوستان میں یہ واقعہ مثل کے طور پر مشہور ہوگیا کہ وعدہ کرو توہمایوں کیطرح نبھاؤ!
لوگ آج بھی اسی انتظار میں کہ ان کے وہ لوگ حکمران بنیں جو اپنے وعدے پورے کرسکیں۔
ماخوذ از سات بادشاہ سات کہانیاں تصنیف و تحقیق؛بیگ راج