پاکستان میں زراعت


ایک زمانہ تھا کہ ،زرعی زمینیں رکھنا افضل سمجھا جاتا تھا ،اسمیں عزت محسوس کی جاتی تھی .بڑے زمیندار ہوں یا چھوٹے کاشتکار، زمین کو بیچنا بے
عزتی سمجھتے تھے ۔

پھر آہستہ آہستہ زرعی زمینوں کی یه اوقات ره گئ که کبھی آفات سماوی اور کبھی آفات سرکاری کے زیر اثر ، ان پر لاگت زیاده اور آمدن کم سے کم ہوتی گئ، ہر ملک کے جغرافیائ حالات کے مطابق انکی بنیادی معیشت کا تعین ہوتا ھے،اس لحاظ سے پاکستان ایک زرعی ملک ھے ، اس کی زراعت ہی اسکی ریڑھ کی ہڈی ھے مگر صد افسوس کے روز بدلتے ہوۓ سیاسی رُخ نے براهِ راست ریڑھ کی ہڈی پر وار کردیا اور اسکو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔

یہاں تک کہ کئ چھوٹے کاشتکاروں نے زمینیں بیچ کر شہری کمرشل جائیداد اور چھوٹے کاروبار کو زیاده بہتر سمجھا.
جن لوگوں نے زرعی زمینوں کو اپنی عزت اور اجداد کی وراثت سمجھ کے گلے لگا کے رکھا، انکے حصے میں سال بھر کی گندم اور چار لوگوں کے سلام کے سوا کچھ نھیں آتا.
اسوقت ایک اوسط کاشتکار اس حالت میں زندگی بسر کررھا ھے جیسے کسی ناکرده گناه کی سزا بھگت رھا ھو.
اسکے برعکس ایک دکان کا مالک بہرحال ایک چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاشتکار سے زیاده اچھی زندگی بسر کرتا ھے .اسکا مال کبھی نه کبھی دیر سویر بک ہی جاتا ھے مگر کاشتکار اپنی جلد خراب ھونے والی اجناس کو اچھی قیمت کے انتظار میں چند دن بھی نہیں رکھ سکتا اور دلالوں اور آڑھتیوں کی بلیک میلنگ کا مجبوراً شکار ھوجاتا ھے
 .
اور سونے په سہاگه که حکومت انڈسٹریلسٹ کے ھاتھوں میں آگئ جو زراعت کی اہمیت اور اسکے مسائل سے ذرہ برابر بھی واقف نہیں ھیں.